اولیاء اللہ کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
سوزنِ زر یعنی سونے کی سوئی ہر مچھلی کے منہ میں تھی، ایک لاکھ مچھلیاں سونے کی سوئی لے کر حاضر ہوگئیں، آپ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ اے مچھلیو! اس امت کے لیےسونے چاندی کا استعمال جائز نہیں ہے، میری لوہے کی سوئی لاؤ، ایک مچھلی نے غوطہ مارا اور لوہے کی سوئی لے آئی، وزیر قدموں میں گر کررونے لگا کہ آہ! یہ مچھلیاں جانور ہوکر اس ولی اللہ کو پہچانتی ہیں اور میں انسان ہوکر اس ولی اللہ کو نہیں پہچان سکا،مجھ سے بہتر تو یہ جانور ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی نالائق ہوتے ہیں جو اولیاء اللہ کے ساتھ بدگمانی کرتے ہیں، ا نہیں نہیں پہچانتے ؎ اشقیا را دیدۂ بینا نہ بود نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود خدا کسی بدبخت کو دید و بینائی نہیں دیتا۔ اللہ اپنی محبت کا غم کس کو دیتا ہے؟ سرمد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند سوزِ غمِ پروانہ مگس را نہ دہند اے سرمد! اللہ اپنی محبت کا غم دنیا کے کتوں کو نہیں دیتا ، دنیا کے لالچیوں کو نہیں دیتا، پروانوں کے چراغ پر جل جانے اور فدا ہونے کا جذبہ مکھیوں کو نہیں ملتا، مکھیوں کا کام اپنے آپ کو پیشاب پاخانے کی غلاظت و نجاست میں ڈبونا ہے اور پروانوں کا کام روشنی پر فدا ہونا ہے، اللہ جس کو یہ نعمت دے دے اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ تو اس وزیر نے کہا کہ جو درجہ آپ کو ملا ہے مجھے بھی اﷲ سے یہ درجہ دلوا دیں، میں بھی آپ کے ساتھ دریا کے کنارے رہوں گا چناں چہ وہ وزیر چھ مہینے ان کے ساتھ رہا اور ولی اللہ بن کر واپس ہوا۔ جو ولی کے ساتھ پیوند لگائے گا ولی اللہ نہیں بنے گا؟ دیسی آم لنگڑے آم سے پیوند لگائے گا تو وہ دیسی آم رہے گا؟ لنگڑا آم بن جائے گا، مگر ایک شرط ہے ،وہ یہ کہ نیکی کی شاخ سے پیوند اور جوڑ مضبوط ہو اور گنا ہوں سے بھی بچتا ہو،کنکر پتھر چھوڑ دینے میں تاخیر کرنا بے وقوفی ہے۔ کیا گناہ اچھی چیز ہے؟ کنکر پتھر ہے۔ خراب چیز دے کر اگر اللہ مل جائے تو نہایت سستا سودا ہے۔ ایک بزرگ شاعر کہتے ہیں کہ جب میں نے سب گناہوں کو چھوڑ دیا تو اللہ کو پا گیا، تب یہ شعر کہا ؎