لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
انہوں نے کہا:تاکہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔ فرمایا:رضائے کامل مانگو، وہ جس سے ایک دفعہ خوش ہوجاتے ہیں پھر کبھی ناراض نہیں ہوتے، جس کو ایک دفعہ مقبول بناتے ہیں پھرکبھی مردود نہیں کرتے، اگر اس سے کبھی خطا ہو بھی جائے تو توفیقِ توبہ سے پاک و صاف کردیتے ہیں۔ اسی لیے حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ جو لوگ اہل اﷲ کا دامن پکڑے ہوئے ہیں، اﷲ والوں سے بیعت ہیں، مشایخ کے یہاں سلوک طے کررہے ہیں، اگرچہ ان سے لغزشیں بھی ہوجائیں، اگرچہ وہ کبھی کسی گناہ سے مغلوب بھی ہوجائیں، لیکن آخر میں جب اُن کا خاتمہ ہوگا تواﷲ تعالیٰ تمام ما سوی اﷲ پر اپنے تعلق کو غالب کرکے کاملین میں نہ سہی، تائبین میں ضرور اُٹھائیں گے۔ حکیم الامت تھانوی کے مُجازِ صحبت حافظ عبد الولی صاحب نے ایک دن مجھے ایک خط دِکھایا کہ اختر! میں تجھے حکیم الامت کے الفاظ دِکھانا چاہتا ہوں، میں نے حضرت کو خط لکھا تھا کہ حضرت! میرے اعمال تو بڑے خراب ہیں، مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے قیامت کے دن میرا کیا حال ہوگا؟ اس کے جواب میں حضرت حکیم الامت نے اپنے دستِ مبارک سے حافظ عبد الولی صاحب کو جو جواب تحریر فرمایا،اس کو میں نے خود پڑھا ہے۔ حضرت کے الفاظ یہ تھے کہ ان شاء اﷲ بہت اچھا خاتمہ ہوگا، اگر کاملین میں نہ اٹھائے گئے تو تائبین میں ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ اور فرمایا کہ جو لوگ اﷲ اﷲ کرتے ہیں اور اﷲ والوں کے پاس آتے جاتے ہیں، ان سب کے ساتھ اﷲ کا یہی معاملہ ہوگا کہ موت سے پہلے ماسِوی اﷲ پر اپنا تعلق غالب فرمادیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کو رحم آتا ہے کہ ساری زندگی یہ مجاہدہ کرتا رہا، نفس سے کشتی لڑتا رہا، کبھی چت ہوگیا کبھی جیت گیا، لہٰذا رحم فرما کر آخر میں اسی کو غالب فرمادیتے ہیں اور تعلقاتِ ماسوی اﷲ پر اپنا تعلق غالب فرما کر اپنے پاس بلاتے ہیں۔ اس پر خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ نہ چت کرسکے نفس کے پہلواں کو تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالے ارے اس سے کشتی تو ہے عمر بھر کی کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے ’’تو دبالے ‘‘کو بعد میں بیان کیا کہ آخر میں تو ہی دبائے گا ان شاء اﷲ۔