Deobandi Books

آداب محبت

ہم نوٹ :

46 - 50
وہ کلمہ یہ ہےاٰمَنْتُ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ21 ؎  ایمان لایا میں اﷲ پر اور اس کے نبیوں پر۔
تو شیطان کو تکبر کا نشہ تھا، اس کا کوئی مربی نہیں تھا۔ آج بھی یہی حالت ہے کہ اگر کسی سے تربیت نہ کرائی، کسی شیخ کی خدمت میں زندگی نہیں گزاری، کسی شیخ سے بیعت نہیں کی اور خود مربّی بن گیا، تربیت کاکام شروع کردیا تو کیا حال ہوگا؟ سب کو ہلاک کرے گا، لہٰذا کسی سے تعلق کرنے سے پہلے کم سے کم یہ تو دیکھو کہ اس نے کس شیخ سے اپنی تربیت کرائی ہے؟ پہلے یہ خود مربّہ بنا ہے یا ویسے ہی مربّی بن گیا؟ اور پھر اس کے شیخ کا کون شیخ ہے؟ اس کا پورا روحانی نسب نامہ دیکھو، جیسے شادی بیاہ کرتے وقت نسب دیکھتے ہو کہ نہیں کہ اس کا خاندان کون ساہے؟ اسی طرح اگر آپ اﷲ تعالیٰ کا تعلق چاہتے ہیں، ایمان، یقین اور اپنے دل کو اﷲ والا بنانا چاہتے ہیں، تو یہاں بھی نسب دیکھ لو کہ جس کو شیخ بنا رہے ہو اس کا سلسلہ کہاں سے ملتا ہے، اس نے خود کسی سے تربیت کرائی ہے؟ کسی شیخ کی صحبت اٹھائی ہے؟ کیوں کہ تکبر کا نشہ اہل اﷲ سے علاج کرائے بغیر نہیں اترتا۔ دیکھیے! مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اﷲ علیہ کے خادمِ خاص شاہ غلام علی صاحب کتنے بڑے شیخ تھے۔ حضرت شاہ غلام علی صاحب کے خلیفہ مولانا خالد کُردی تھے جو شام میں رہتے تھے، علامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ اور تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ ان کے مرید ہیں۔ شاہ غلام علی صاحب ایک دن اپنے شیخ مرزا مظہر جانِ جاناں کو پنکھا جھل رہے تھے، شیخ نے فرمایا: ارے غلام علی! تیرے ہاتھ میں جان نہیں ہے؟ اب بہت تیز جھلنے لگے، تو فرمایا: غلام علی! اُڑادے گا کیا؟ان کے منہ سے اتنا نکل گیا کہ کسی حالت میں چین نہیں ہے، نہ یوں بنے ہے نہ یوں بنے ہے،یعنی آہستہ جھلوں تو کہتے ہیں ہاتھ میں جان نہیں،تیز جھلوں تو کہتے ہیں کیا اڑا دے گا؟ بس شیخ ناراض ہوگئے۔ یہ راستہ بہت نازک ہے۔ غرض شیخ بہت دن تک ناراض رہے، شاہ غلام علی صاحب بہت رویا کرتے تھے، اخیر میں ان کے چہرے سے اور حالات سے پتا چل گیا کہ کبر ٹوٹ گیا، نشۂ خود رائی نکل گیا تو معافی ہوگئی، اسی لیے روحانی امراض کا شیخ سے علاج کرانا پڑتا ہے۔مولانا مسیح اﷲ خان صاحب نے لاہور کے اجتماع میں جو سبق دیا، بس تمام تقریر کا خلاصہ یہی ہے کہ تکبر کا نشہ نہ آنے دو۔ روحانی بیماریاں دو ہی تو ہیں، ایک باہی ایک جاہی، باہی، سے مراد بدنگاہی، شہوت، نفسانی 
_____________________________________________
21 ؎   کنزالعمال:246/1(1237)،فصل فی الشیطان ووسوستہ،مؤسسۃ الرسالۃ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرضِ مرتب 7 1
3 رِیا (دکھاوا) کسے کہتے ہیں؟ 8 1
4 سنت اور بدعت کی مثال 10 1
5 حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کا عاشقانہ ترجمہ 12 1
6 اسلاف میں شیخ کی کیا عظمت تھی 15 1
7 شیخ کی شفقت و محبت کی مثال 19 1
8 راہِ حق کے مجاہدات اور اس کے انعامات 20 1
9 تعمیلِ احکامِ الٰہیہ کی تمثیل 22 1
10 نفس کا ایک خفیہ کید 23 1
11 دلِ شکستہ کی دولتِ قرب 24 1
12 ذکر اﷲ سے روحانی ترقی کی مثال 25 1
13 موت کے وقت دنیا داروں کی بے کسی 26 1
14 دنیاوی محبت کی بے ثباتی 27 1
15 خدا کے مجرم کی کوئی پناہ گاہ نہیں 28 1
16 مقرب بندوں سے اﷲ کی محبت کی ایک علامت 28 1
17 تکبر کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ خطرناک ہے 30 1
18 انسانوں کو شیطان کے دو سبق 31 1
19 تعلیمِ قرآن و حدیث اور تزکیہ…نبوت کے تین مقاصد 32 1
20 شعبۂ تزکیۂ نفس کی اہمیت 33 1
21 نفس کی حیلولت کی تمثیل 34 1
22 تفسیر آیت وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ … الخ 37 1
23 شہادت……عاشقوں کی تاریخِ عشق و وفا 39 1
25 شہادت کے متعلق ایک جدید علم 40 1
26 بغیر شیخ کے اصلاح نہیں ہوتی 42 1
27 ایمان کا تحفظ صحبتِ اہل اﷲ کے بغیر ناممکن ہے 44 1
28 شیطانی وَساوِس کا علاج 45 1
29 اﷲ والا بننے کا نسخہ 47 1
30 آیتِ شریفہ میں اسمائے صفاتیہ عزیز و حمید کے نزول کی حکمت 40 1
31 مہربانی بقدرِ قربانی 19 1
32 سائنسی تحقیقات کا بودا پن 13 1
Flag Counter