صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
دنیااور آخرت اللہ تعالیٰ کی ایک الماری ہے،اس کا ایک خانہ آسمان کے نیچے ہے یہ دنیا ہے اور دوسرا خانہ آسمان کے اوپر ہے، وہ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتے ہیں ہمیں نیچے کے خانے میں رکھتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اوپر کے خانے میں رکھ دیتے ہیں۔ یہ ہے تفسیر اِنَّالِلہِ کی کہ ہم اللہ کے ہیں، ان کی ملکیت ہیں، اس لیے ان کو ہم پر ہر طرح کے تصرف کا اختیار ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ؎ آں کہ جاں بخشد اگر بکشد رواست جو جان دیتا ہے وہ اگر قتل بھی کردے یعنی جان کو واپس لے لے تو اس کے لیے بالکل روا ہے کیوں کہ جان بھی تو اسی نے دی تھی۔ جو جان دے سکتا ہے وہ جان لے بھی سکتا ہے،اور وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دے دی کہ یہ جدائی عارضی ہے، تم لوگ بھی یکےبعد دیگرے ہمارے پاس آنے والے ہو، جہاں تمہارے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے بھی دوبارہ ملاقات ہوجائے گی اور پھر کبھی جدائی نہ ہوگی۔ رہا جدائی کا غم ہونا تو یہ طبعی بات ہے اور رحمت کا تقاضا ہے۔ چناں چہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے اگلے دن جب میرے بیٹے مولانا مظہر سلمہٗ نے مجھے اطلاع کی کہ مرض بڑھ گیا ہے لیکن کہا کہ والدہ بھی اجازت دے رہی ہیں کہ ابھی وہاں اور رہ جاؤ تو میں نے دل میں کہا کہ اجازت اور ضابطہ اور چیز ہے اور رحمت اور رابطہ اور چیز ہے لہٰذا میری رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اب مجھے فوراً واپس جانا چاہیےکیوں کہ عمرہ ہوچکا۔ معلوم ہوا کہ رات کو کراچی کے لیے ایک پرواز ہے لیکن بتایا گیا کہ اس میں جگہ ملنا بوجوہ مشکل ہے لیکن یہ بھی میرے گھر والوں کی کرامت تھی کہ ہمارے دو احباب سعودی ایئرلائن کے دفتر گئے تو وہاں بہت اجتماع تھا، شاید ڈیڑھ دو گھنٹے میں نمبر آتا لیکن دو منٹ میں کمپیوٹر میں ان کا نام آگیا، تین سیٹیں بھی مل گئیں اوربورڈنگ کارڈ بھی مکہ شریف ہی میں مل گیاجبکہ جدہ ایئرپورٹ پر ملتا ہے۔ ان کی کرامت تھی کہ ہر طرف سے مدد ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ پاک کی حاضری کے لیے ٹیکسی ہی سے گئے۔ مواجہہ شریف میں صلوٰۃ وسلام پڑھا اور اسی ٹیکسی سے فوراً جدہ واپس ہوگئے۔ سارا دن مسلسل سفر رہا، ایک لمحہ کو