صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
صبر اور مقامِ صدّیقین اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ِ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ 1؎وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَوَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بَاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ 2؎اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور اس کے مخاطب صحابہ بھی ہیں اور قیامت تک آنے والی اُمتِ مسلمہ بھی۔تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اوّل خطاب تو صحابہ سے ہے، وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ میں ضمیر کُمْ حاضر کی ہے،مگرصحابہ کے واسطے سے قیامت تک کےایمان والوں کوخطاب ہے کہ ہم ضرورضرورتمہارا امتحان لیں گے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ کےمعنیٰ امتحان لینے کے ہیں،جیسا کہ سورۂملک میں فرمایا لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا 3؎اے انسانو! تم کو زندگی ہم نے اس لیے دی ہے کہ تاکہ ہم تمہیں آزمائیں کہ تم میں _____________________________________________ 1؎البقرۃ: 157-155 2؎صحیح البخاری:125/1 (1285)،باب یعذب المیت ببکاء اہلہ علیہ،المکتبۃ المظہریۃ 3؎الملک: 2