(۲) بہت سے لوگ چالیس دن یا کم وبیش قبر پر جا کر قرآن شریف کی تلاوت کر کے آخر میں میت کے ورثاء سے رقم وصول کرتے ہیں جس کے ساتھ اکثر جوڑا بھی ملتا ہے اور بعض علاقوں میں میت کے کپڑے اور برتن بھی دیے جاتے ہیں۔
(۳) بعض علاقوں میں شبینہ ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ چند حافظ رات کو جمع ہوکر صبح تک قرآن مجید ختم کردیتے ہیں ایک پڑھتا ہے اور باقی سب سنتے ہیں صبح ہونے پر صدر الحفاظ ہو فی حافظ پانچ روپے (مثلاً) دیدئے جاتے ہیں جنہیں وہ سب پر تقسیم کردیتا ہے۔
(۴) تراویح میں قرآن شریف سنا کر رقم لی جاتی ہے۔
اور ان کے علاوہ بھی ان سے ملتی جلتی صورتیں مختلف علاقوں میں ضرور روائج ہوں گی جن کا ہم کو علم نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں محققین کا فتوٰی یہ ہے کہ تلاوت پر جو بھی کچھ لیا جاوے وہ سب ناجائز ہے طے کر کے لینا اور بغیر طے کئے ملنے کی امید پر پڑھنا اور سنانا دونوں برابر ہے زبان سے بات چیت نہ ہوئی مگر سننے پر پڑھنے والوں کے دل میں یہ جماہوا ہے کہ دینا ضرور پڑے گا اور حافظ وقاری بھی یقین کئے ہوئے ہے کہ ضرور ملے گا یہ مشروط تو نہ ہوا مگر رواجاً چونکہ معروف ہوچکا ہے اس لئے مشروط کے حکم میں ہے، فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ المعروف کالمشروط حافظ صاحب خواہ کتنا ہی کہیں کہ میں اللہ کے لئے پڑھتا ہوں لیکن اگر ذرا بھی گمان غالب ہوجائے کہ یہاں کم ملے گا یا کچھ نہ ملے گا تو دوسری جگہ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں ان حالات میں یوں کہہ کر حلال سمجھ لینا کہ ہم نے نہ مانگا نہ طے کیا لوگوں نے خود ہی دیدیا سراسرخود فریبی ہے جو آخرت کا خوف نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے ان تلاوت کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ اپنے ماں باپ اور استاذ کے لئے کبھی ایک ختم بھی نہیں پڑھتے اور جہاں پیسہ ملتا ہے وہاں ختم پر ختم پڑھتے چلے جاتے ہیں حالانکہ جو تلاوت لالچ کی وجہ سے ہو اس کا ثواب پڑھنے والے ہی کو نہیں ملتا دوسرے کو کیا بخشے گا تراویح میں قرآن شریف سنانے کے لئے حفاظ سفر کرتے ہیں شہروں اور قصبوں میں پہنچتے ہیں اور جھوٹی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم کو صرف سنانا مقصود ہے روپیہ پیسہ لینے کے لئے ہم نہیں سناتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ کو صرف سنانا ہی ہے تو اپنے دیہات کی مسجد کیوں چھوڑ آئے، وہاں تو کوئی سورتوں سے پڑھانے والا بھی نہیں۔
جو لوگ میت کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے قبر یا گھر پر ختم پڑھتے ہیں د و طرح سے مجرم بنتے ہیں،اول یہ کہ کچھ ملنے کے لئے قرآن شریف کی تلاوت کی، دوم یہ کہ ترکہ کی رقم اور برتن اور کپڑے وغیرہ لیتے ہیں جو عموماً ترکہ تقسیم کئے بغیر حافظ صاحب کو دیدئے جاتے ہیں حالانکہ اس میں نابالغ بچے اور غیر حاضر ورثاء کا بھی حق ہوتا ہے جس میں موجود وارثین