اعمال کا مومن بندہ ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے ان کا بھی اجروثواب دے کر نوازتے ہیں اور مزید کرم یہ ہے کہ سبب بننے والے کو محض اپنے دریائے کرم سے ثواب کی دولت عنایت فرماتے ہیں جس نے عمل کیا ہے اس کے اجر سے کاٹ کر نہیں دیتے ہیں (من غیر ان ینقص من اجورہم) کسی نے علم دین حاصل کیا پھر اس کو پھیلایا تو اس کا یہ علم اس کے ذریعہ اور اس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کے ذریعے تابقائے دنیا جہاں تک پہنچے گا اور اس پر عمل کرنے والے جس قدر بھی عمل کریں گے اس میں پورے علم وعمل کا ثواب اس شخص کو ملتا رہے گا اگرچہ دنیا سے گذرے ہوئے اس کو صدیاں گذرجائیں اور اس کے علم وفضل سے مستفید ہونے والے اس کو جانتے بھی نہ ہوں مصنفین ومبلغین مرشدین ومعلمین واعظین ومقررین کیلئے بے انتہا اجر وثواب کا میدان آخرت ہی میں پتہ لگے گا اہل دنیا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے دنیا والوں کے رواج میں ناپنے تولنے اور شمار کرنے کی جو انتہائی مقداریں مقرر ہیں ان میں اتنی وسعت کہاں کہ علم وعمل کے مبلغین وناشرین کے اجروثواب کو اندازہ میں لا سکیں مگر اخلاص نیت شرط ہے، اگر نیت دنیا طلبی نام آوری وغیرہ کی ہے تو سب کچھ نہ صرف بیکار بلکہ وبال ہے۔
وہ نیکی جس کا اجر وثواب برابر ملتا رہے گا شریعت کی اصطلاح میں اس کو صدقہ جاریہ کہتے ہیں، حدیث بالا میں حضور اقدس ﷺنے علم پھیلانے کا تذکرہ فرما کر چند دوسری نیکیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کا ثواب برابر بعد مرگ بھی ملتا ہے، اول صالح اولاد چھوڑ گیا یہ اولاد نیک عمل کرتی ہے ماں باپ کے لئے دعا کرتی ہے ، ماں باپ کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، دوم قرآن شریف ترکہ میں چھوڑ دیا یعنی اپنے پڑھنے کے لئے یا اولاد یا بیوی یا کسی دوسرے کی تلاوت کے لئے قرآن شریف لے کر اس نے اپنے گھر میں رکھ چھوڑ ا تھا دنیا سے کوچ کرگیا اور اپنے پیچھے جہاں دوسرا مال چھوڑا وہاں قرآن شریف بھی کسی وارث کے حصہ میں آگیا وہ اس میں تلاوت کرتا ہے اس کے بیوی بچے پڑھتے ہیں ان کو تو ثواب ملتا ہی ہے مگر وہ مرنے والا جس نے اپنے ترکہ میں قرآن شریف چھوڑا تھا وہ بھی برابر اس تلاوت کی وجہ سے ثواب پارہا ہے اگر قرآن شریف یا تفسیر وحدیث اور فقہ وفتاوٰی کی کتابیں مساجد ومدارس کے لئے وقف کردیں یا اپنے خرچہ سے چھپوا کر امت میں پھیلا دیں تو یہ صورت بھی صدقہ جاریہ کے عظیم ثواب کا باعث ہے، سوم مسجد بنادی لوگ اس میں نماز پڑھتے ہیں قرآن شریف کی تلاوت ہوتی ہے ذکر وورد والے اپنے اذکار واوراد پورے کرتے ہیں تعلیمی حلقے بیٹھتے ہیں وعظ کی مجلسیں ہوتی ہیں ان سب چیزوں کے ثواب میں مسجد بنانے والے کا برابر حصہ لگا ہوا ہے، چہارم مسافر خانہ بنادیا، پنجم نہر جاری کردی (یا کنواں کھدوادیا) جب تک مسافر خانہ مخلوق خدا کے کام میں آئے گا اور جب تک نہر (اور کنویں ) کا پانی استعمال میں آتا رہے گا بنانے والا ثواب پاتا رہے گا۔