بسم اللہ الرحمن الرحیم
تصحیح نیت اور اس کی اہمیت
(۱) (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِی مَّا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ اِلَی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہُا فَہِجْرَتُہُ اِلَی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ) (رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ: حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اعمال نیتوں سے متعلق ہیں اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، پس جس کی ہجرت (اس کی نیت میں) اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے سو اس کی ہجرت اللہ کے نزدیک بھی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے، اور جس کی ہجرت (اس کی نیت میں) دنیا ملنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی ہے سو اس کی ہجرت اللہ کے نزدیک بھی اس کی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی (بخاری ومسلم)
بظاہر اس حدیث پاک میں علم کا ذکر نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عمل سے اس کا تعلق ہے علم سیکھنا اور سکھانا بہت بڑا عمل ہے اس کے لئے بھی نیت کی درستگی لازم ہے اگر نیت صحیح نہ ہوئی تو محنت نہ صرف ضائع ہوگی بلکہ آخرت میں وبال اور عذاب کا ذریعہ بنے گی۔علمائے حدیث نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کو ہر کتاب کے اول میں لکھنا چاہئے جیسا کہ حضرت امام بخاری اور صاحب مشکوٰۃ ؒ نے کیا ہے، محدث ابن مہدی ؒ نے فرمایا ہے کہ اگر میں کوئی کتاب لکھتا تو ہر باب کے شروع میں یہ حدیث لکھتا، بعض اکابر امت نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث آدھا دین ہے۔
اول قاعدہ کلیہ بیان فرمایا کہ اعمال کی جزا وسزا کا تعلق نیتوں سے ہے،جیسی نیت ہوگی آخرت میں ویسا ہی پھل ملے گاپھر مثال کے طور پر ہجرت کے متعلق نیت کی خوبی اور خرابی کا ذکر فرمایا جس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اس وقت بہت سے مسلمان مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے اور جو باقی تھے ہجرت کر رہے تھے اور چونکہ مکہ معظمہ میں اسلام پر چلنا دشمنوں کی شرارتوں کی وجہ سے ازحد مشکل ہوگیا تھا اس لئے شرعا اس وقت ہجرت کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت بڑھ گئی تھی۔
مہاجر ام قیس
اسی زمانے میں ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا وہ شخص مکہ معظمہ میں اور عورت مدینہ منورہ میں تھی عورت نے جواب دیا کہ تم مدینہ چلے آؤ تو نکاح ہوسکتا ہے اس پر اس شخص نے مکہ معظمہ چھوڑ کر مدینہ میں سکونت اختیار کرلی اور چونکہ ہجرت کا سلسلہ جاری تھا اس لئے مکہ چھوڑنا بظاہر ہجرت شرعی سمجھا جا سکتا تھا لیکن دوسرے مسلمانوں پر یہ