چلاؤ۔
۱۱۔ اپنی بیوی کے سامنے کسی پرائی عورت کی تعریف نہ کرو۔ بالخصوص کسی کے حسن و جمال کا ذکر اس کے دل کو شکستہ بنادے گا اور تم اس کی نگاہ میں مشکوک بن جاؤ گے۔
۱۲۔ امور خانہ داری یعنی گھر کے کام کاج میں اس کی رائے کو وقعت دو کہ اس کی رائے اس معاملے میں بسا اوقات صحیح ہوتی ہے۔
۱۳۔ بیوی کے سامنے کسی بات میں حجت بازی نہ کی جائے کہ یہ اس کے لایق نہیں۔ ہاں! اس کے ساتھ جذبات کا لحاظ رکھ کر برتاؤ کیا جائے یہی اس کے لایق ہے۔
۱۴۔ عورت اگر پڑھی لکھی ہو تو اسے اچھی اخلاقی اور مذہبی کتابیں پڑھنے کو دو۔ ناول، افسانے اور خرافات کو ہاتھ نہ لگانے دیا جائے۔
۱۵۔ کبھی کبھار گھر میں کچھ گڑبڑ ہو تو اسے اندر ہی اندر نمٹ لو، باہر دوسروں تک نہ پھیلاؤ۔
۱۶۔ بد اخلاق عورتوں کے ساتھ ہرگز جوڑ نہ ہونے دیا جائے ورنہ وہ اسے بھی برباد کردے گی۔
۱۷۔ اگر گھر میں ماں بہنوں کے ساتھ بیوی کی کوئی گڑبڑ ہوجائے تو انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نمٹادیا کرو۔
۱۸۔ گھر کے معاملات میں نہ بہت زیادہ سخت نہ بہت زیادہ نرم ہونا چاہیے۔
۱۹۔ خدانخواستہ اگر کسی بدزبان اور بداخلاق عورت سے پالا پڑگیا اور اصلاح کی کوئی
امید نہیں تو مجبوری میں اس کو علاحدہ کرنے ہی میں بھلائی ہے۔ مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ حدیث پاک میں صاف طور پر ارشاد ہے کہ عورت بائیں جانب کی اوپر کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور وہ سب سے زیادہ ٹیٹرھی پسلی ہے۔ لہٰذا اس کے ٹیڑھ پن کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتا رہے، ورنہ بالکل سیدھی کرنے جائے گا توتوڑ بیٹھے گا اور مزید ٹیڑھا کرے گا تو توڑ بیٹھے گا۔ اس لیے مرد کو حتی الامکان تحمل سے کام لینا چاہیے، حتی الامکان طلاق سے بچنا چاہیے، شریعت نے طلاق کو پسند نہیں کیا، ابغض المباحات فرمایا ہے۔ یعنی یہ مباح و جائز کاموں میں بہت ۔ُبرا کام ہے۔ اس پر اقدام بہت سوچ سمجھ کر اور اپنے مخصوص متعلقین سے مشورہ کے بعد ہی کرنا چاہیے۔ تین طلاق دینا اور وہ بھی ایک ہی ساتھ بہت ۔ُبرا ہے، شاید پشیمانی اٹھانی پڑے۔
۲۰۔ عورت اگر بیمار ہے یا اس کے حیض میں گڑ بڑ ہے تو جلد ہی اس کے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
بیوی پر شوہر کے حقوق: جس طرح مرد کے ذمے عورت کے بہت سے شرعی اور اخلاقی حقوق ہیں، ایسے ہی عورت کے ذمے شوہر کے بہت سے حقوق ہیں جن