دوستوں کی یہ خواہش بہت عمدہ اور مناسب تھی، اور ان کی خواہش کا احترام میرے ذمے ضروری تھا، مگر ابتدا میں طبیعت کو کافی تردّد رہا، پھر اس موضوع پر مضامین کی تیاری بڑا اہم مسئلہ تھا، خصوصاً جب کہ اس قسم کی بہتر کتابیں بھی میسر نہیں۔
لیکن اس کا احساس ضرور رہا کہ گو انوکھا موضوع ہے، مگر ضرورت ایسے رسالے کی بہت ہے۔ اور کیا بعید کہ سنت رسول اللہﷺ کو زندہ کرنے کی جو بشارتیں دی گئی ہیں ان میں شرکت ہوجائے، اور سعادتِ دارین کا ذریعہ بنے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر اعتماد کیا، اس نے دست گیری فرمائی اور بڑی کوشش کے بعد رسالہ تیار ہوا۔ اللہ تعالیٰ میری کوتاہیوں کو درگزر فرما کر رسالے کو قبول فرمائے، اور تمام لوگوں کے لیے مفید بنائے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ
محمد ابراہیم پالن پوری
خادم حدیث نبوی
مدرسہ عربیہ تعلیم الاسلام آنند ۔گجرات
تحفۃ النکاح
جوانی کی ابتدا: لڑکے کی جوانی شریعت میں مختلف علامتوں سے پہچانی جاتی ہے۔ احتلام کا ہوجانا یا اس سے کسی عورت کو حمل کا ٹھہرنا یا شہوت کے ساتھ انزال ہوجانا، لیکن اگر اس طرح کی کوئی علامتِ بلوغ ظاہر نہ ہو تو پندرہ سال پورے ہونے پر شریعت میںبالغ شمار ہوتا ہے۔
لڑکی کے بلوغ کی علامت حیض کا آنا یا احتلام ہوجانا یا حمل ٹھہرنایا بیداری میں شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا، اور کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پندرہ سال پر بالغہ شمار ہوگی۔
بالغ ہونے کے بعد وہ دونوں احکامات شرعیہ کے مکلف ہوجاتے ہیں۔ نماز، روزہ اور دیگر اَحکام ان پر فرض ہوجاتے ہیں۔ اب اگر غفلت یا نادانی کی وجہ سے ان کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں گے تو ان کی قضا اور تلافی کرنا ضروری ہوگا۔
بالغ ہونے سے پہلے بچہ اپنے ماں باپ کے تابع تھا۔ شریعت کی طرف سے اس پر کوئی چیز فرض نہیں تھی، مگر اب بالغ ہونے کے بعد وہ مستقل مرد شمار ہوتا ہے اور شریعتِ مطہرہ کے تمام احکام اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔