ادھر ادھر بھٹکنے اور غیروں کی طرف جانے سے محفوظ رہے۔ مگر یادرہے کہ شادی سے پہلے (اگرچہ منگنی ہوجائے) وہ اجنبی ہے، نکاح سے پہلے ہاتھ لگانا، اس سے گفتگو کرنا، اس کو دیکھنا ناجائزوحرام ہے۔
رشتہ طے کرنے کے آداب: لڑکے کے جوان ہونے کے بعد جب اس کی نسبت طے کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ پہلے خود اس کی رائے معلوم ہوجائے، اگر وہ خود کچھ نہ کہے تو اس کے ہم عمر دوستوں اور ساتھیوں کے ذریعے اس کی دلی رغبت کا پتہ چلایا جائے۔
اگر اس کی دلی رغبت کا کسی ذریعے سے پتہ چل جائے تو اس کے اولیا اس لڑکی اور اس کے خاندان کے حالات اور دین داری پر نظر کریں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھ لیں کہ ان دونوں میں نبھاؤ ہوسکے گا یا نہیں۔ اگر دونوں میں موافقت نظر آئے تو رشتہ طے کردیں۔
یہاں اس بات کا خیال رہے کہ لڑکے کی رائے کے بالکل برخلاف یا اس کی لاعلمی میں کسی جگہ رشتہ طے کردینا عقل مندی کی بات نہیں۔ اس لیے کہ زندگی بھر ان کو ساتھ رہنا ہے،
ورنہ خطرہ ہے کہ ان میں بے لطفی پیدا ہو اور جوڑ کے بجائے توڑ ہوجائے۔ لہٰذا اس کی زندگی کے مفاد کو سامنے رکھ کر اسی کی خوشی سے رشتہ طے کیا جائے۔ ہاں! اگر ماں باپ کو یہ اندازہ ہو کہ لڑکا اپنے نفس کی شرارت اور طبعی آزادی کی وجہ سے ہماری پسند کردہ اچھی جگہ کو چھوڑ کر کسی غلط جگہ اپنا رشتہ طے کرنا چاہتاہے تو اس کو سمجھانا اور جہاں رشتہ طے کرنا ہے وہاں کی خوبیاں اور فوائد ذہن نشین کرنا اخلاقی فریضہ ہے۔ اس طرح ہنسی خوشی رشتہ بھی ہوجائے گا اور ماں باپ کی طرف سے دل بھی صاف رہے گا اور کوئی کدورت پیدا نہیں ہوگی۔
پھر رشتہ طے کرنے کے لیے حسب ذیل باتوں کا لحاظ کرنا بہتر ہے:
۱۔ لڑکی کی عمر لڑکے سے کچھ کم ہو (زیادہ نہ ہو) یعنی لڑکی کی عمر دو چار سال کم ہو۔
۲۔ نو عمر لڑکے کے لیے کنواری لڑکی زیادہ مناسب ہے۔ تاکہ حدیث پاک کے ارشاد کے مطابق ان میں خوب محبت اور موافقت پیدا ہوسکے۔
منگنی سے پہلے ایک نظر دیکھ لینا:
۳۔نسبت طے کرنے سے پہلے دونوں ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لیں۔ چناں چہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ نکاح سے پہلے منکوحہ کو دیکھ لو، اس صورت میں امید ہے کہ دونوں میں محبت اور انسیت زیادہ پیدا ہوگی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات اس قسم کے موقعوں پر سنی سنائی باتوں سے انسان اپنے ذہن میں کوئی