ہو نہ عورت کو۔ اس میں ایک صورت عزل کی ہے یعنی بیوی سے جماع کرکے جب انزال (منی نکلنے) کا وقت آئے تو اس سے علاحدہ ہوجائے تاکہ منی باہر نکالے۔ اسی طرح ایک حکیم صاحب نے یہ طریقہ لکھا کہ عورت صحبت کے بعد فوراً الٹی لیٹ جائے یا فوراً کھڑے ہو کر الٹے پیر چلنے لگے، اس سے بھی حمل قرار نہیں پائے گا۔ گویا ایسی صورتوں کے اختیار کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے جس میں وقتی طور پر حمل قرار نہ پائے اور مرد عورت کسی کو نقصان نہ ہو۔
آج کل جو نس بندی وغیرہ کے سلسلے چل پڑے ہیں وہ یا تو ہمیشہ کے لیے اولاد کا سلسلہ منقطع ہونے کا ذریعہ ہے (جو اللہ کی دی ہوئی ایک قوت کو بالکل ضایع کردینے کے ہم معنی ہے) یا پھر ایسی صورتیں ہیں جن سے گوہمیشہ کے لیے تو سلسلہ بند نہیں ہوتا، لیکن کسی ایک کو شدید نقصان ہوتا ہے۔ صحت برباد ہوجاتی ہے، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً: مانع حمل زہریلی گولیاں استعمال کرنا یا مرد کا ترودھ وغیرہ استعمال کرنا۔ جن مردوں یا عورتوں نے اس قسم کے طریقے اختیار کیے وہ اپنی صحت کھو بیٹھے ہیں۔
ولادت کا بیان: جب بچے کے پیدا ہونے کا وقت قریب آجائے تو مناسب یہ ہے کہ گھر میں ہی رہ کر اچھی ماہر دایہ کو بلالیا جائے تاکہ پیدا یش کے وقت کا اور دوسری چیزوں کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے، اسی کے ساتھ طبی اور ڈاکٹری مشورے اور علاج وغیرہ بھی شامل ہوں تو اچھا ہے۔
آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ ولادت کے وقت بیوی کو ہسپتالوں کے حوالے کردیتے ہیں، چوں کہ وہاں عموماً غیر مسلم دائیاں ہوتی ہیں اور بے پردگی بھی خوب ہوتی ہے، اور پورا غیر اسلامی ماحول ہوتا ہے اس لیے ایسے وقت گھر کا پاکیزہ ماحول چھوڑ کر وہاں جانا اچھی چیز نہیں۔ ہاں! اگر کوئی مجبوری ہو، عورت کو شدید تکلیف یا بیماری ہو یا بروقت اچھی دائی نہ ملے تو پھر ہسپتال جانے کی گنجایش ہے۔
اب ولادت کے بعد کی چند مناسب باتوں پر نشاندہی کرتا ہوں:
۱۔ بچے کے پیدا ہونے کے بعد اسے پاک صاف کرکے اور غسل وغیرہ دے کر اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیںکان میں تکبیر کہنی چاہیے۔
۲۔ اگر کوئی بزرگ یا نیک آدمی ہوتو اس سے تحنیک کرائی جائے یعنی کسی بزرگ کے ہاتھ سے کھجور چبوا کر اور نرم کرکے بچے کے تالو میں لگادی جائے تاکہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نیک آدمی کا لعاب اور کھجور کی مٹھاس پہنچے جو بابرکت ہے۔
عقیقہ کا بیان:
۱۔ بچے کے ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت ہے، اگر ساتویں دن نہ ہو تو بعد میں کبھی