ہوجائے۔
۱۱۔ فارغ ہونے کے بعد جب تک بدن گرم رہے ٹھنڈی ہوا نہ کھانی چاہیے، ایسے ہی فوراً ٹھنڈا پانی وغیرہ بھی استعمال کرنا صحت کے لیے مضر ہے۔ البتہ کوئی ہلکی مقوی چیز کھانے میں حرج نہیں۔
۱۲۔ پھر اگر دوبارہ جماع کرنے کا ارادہ ہو تو جب تک سچی خواہش پیدا نہ ہو جماع کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے (البتہ شرعاً جواز میں کوئی کلام نہیں)۔
سچی خواہش کی علامت یہ ہے کہ اعضائے شہوت کو حرکت دیے بغیر اسی طرح ذہن کو صحبت کی طرف منتقل کیے بغیر شہوت پیدا ہو تو سمجھو سچی شہوت ہے ورنہ نہیں۔
۱۳۔ جماع نری خواہش پوری کرنے کی نیت اور ارادے سے نہ ہو بلکہ اچھی نیت سے کیا جائے۔ مثلاً: نفس و نگاہ کو پراگندہ ہونے سے بچانا، بیوی کا حق ادا کرنا، اولاد نیک صالح ہو اور داعی الی اللہ بنے وغیرہ امور کی نیت کرلی جائے تو لطف و لذت کے ساتھ ثواب بھی ملے گا۔ بلکہ حدیث پاک میں صدقہ کرنے کا ثواب ملنے کی بشارت ملتی ہے۔
۱۴۔ دوبارہ جماع کرنے سے پہلے بھی اسباب نشاط اختیار کریں اور بیوی کو پیار و محبت کے ذریعے پوری طرح تیار کریں۔
۱۵۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حیض و نفاس یعنی عورت کی ناپاکی کی حالت میں صحبت کرنا بالکل حرام ہے۔ حیض (ماہ واری) کی کم سے کم مدت تین دن تین رات اور زائد مدت دس دن دس رات ہے۔ نفاس (بچہ پیدا ہونے کے بعد) کی مدت مقرر نہیں اور زائد سے
زائدمدت چالیس دن چالیس راتیں ہیں۔ اس کی زیادہ تفصیل ’’ہدیۃ النساء‘‘ میں ملے گی۔
۱۶۔ میاں بیوی کو رات کی تنہائی کی باتیں اپنے دوست و احباب اور سہیلیوں کے سامنے ہرگز بیان نہ کرنی چاہیے، یہ سخت گناہ کی بات ہے۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ دوسروں کے سامنے اس طرح کی باتیں کرنا گویا ان کے سامنے یہی کام کرنا ہوا، جو انتہائی بے حیائی اور بے شرمی کی علامت ہے۔
دو جماع کی درمیانی مدت: ایک مرتبہ جماع کرنے کے بعد پھر کب جماع کرنا چاہیے؟ اس میں قطعی طور پر کوئی مدت نہیں بیان کی جاسکتی۔ لوگوں کے حالات اور مزاج کے اعتبار سے مدت مختلف ہوسکتی ہے۔ اطبا لکھتے ہیں کہ ایک مہینے میں ایک ہی مرتبہ اسے اختیار کیا جائے اور اگر زیادہ تقاضا ہو تو دو مرتبہ اور اگر اس پر بھی اطمینان نہ ہو تو پھر ہفتے میں ایک بار۔
ہفتے میں ایک مرتبہ جماع کرنا کنایتہ حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً حدیث میں جمعہ کی شب میں جماع کے بعد غسل وغیرہ کرکے جمعہ کی نماز پڑھنے کی