اثرات اور بے حیائی اور بے حجابی پائی گئی تو خطرہ ہے کہ تمھیں بھی لے ڈوبے اور اپنی اولاد کو بھی اسی رخ پر لگادے۔
اسی طرح عورت کا بدزبان اور فحش گو ہونا اور سیر و تفریح کا شیدائی ہونا اور اقارب و اجانب سے اختلاط و میل جول نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی عورتوں سے بھی تعلق مفید نہیں۔
اسی طرح عورت کے انتخاب میں حسب ذیل باتیں بھی دیکھی جائیں۔
۱۔ تن درست ہو، کسی مہلک بیماری میں مبتلا اور دایم المرض نہ ہو۔
۲۔ اپنے ہی خاندان کی ہو تو بہتر ہے تاکہ صلہ رحمی بھی ہوسکے۔
۳۔ دونوں کا مزاج تقریباً یک ساں ہو۔ مثلاً: ایک بہت شوقین ہے اور دوسرا انتہائی سادہ مزاج ہے۔ تب بھی لطف زندگی دشوار ہے۔
۴۔ کسی قدر پڑھی لکھی اور دینی تعلیم یافتہ ہو، بالکل جاہل نہ ہو، ان باتوں کا لحاظ جیسے لڑکے والے کریں لڑکی والوں کو بھی کرلینا چاہیے۔
اس کے بعد جب منگنی کا ارادہ ہو تو مسنون طریقے پر وضو یا غسل کرکے چار رکعت پڑھے۔ دو رکعت صلوٰۃ الحاجت اور دو رکعت صلوٰۃ الاستخارہ کی نیت سے۔ اور ان دونوں نمازوں کی احادیث میں وارد شدہ دعائیں بھی پڑھے اور پھر دعا کرے کہ اللہ زندگی کا بہترین رفیق عطا فرمائے اور اس کی تکمیل کے اسباب پیدا فرمادے۔
شادی کے مختلف مواقع میں اگر دعا وغیرہ کا اہتمام کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت ہی زیادہ نفع ہوگا۔
منگنی کیسے ہو؟ منگنی کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔ یہ محض لڑکے اور لڑکی کے اولیا کا آپس میں ایک معاہدہ ہے۔ اولیا چاہیں تو زبانی بات چیت کے یا خط و کتابت کے ذریعے یا کسی دوست وغیرہ کے ذریعے طے کرلیں۔ نسبت طے ہوجانا ایک قسم کا عہد اور معاہدہ ہے۔ اس کو جہاں تک ممکن ہو نبھانا چاہیے ورنہ بدعہدی ہوگی، جو شریعت میں انتہائی ناپسند ہے۔
شادی کی تاریخ طے کرنا: نسبت طے کرنے کے بعد دونوں طرف کے اولیا زبانی یا خط و کتابت کے ذریعے یا کسی آدمی کے ذریعے نکاح کی تاریخ طے کرلیں۔ اس سلسلے میں جتنی غلط قسم کی رسومات رایج ہیں وہ سب واہیات اور لغو چیز ہیں، ان سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔
اس نسبت کے بعد نکاح کی جو تاریخ طے ہوجائے اس کے مطابق ہی رشتے داروں اور دوستوں کی موجودگی میں انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کرلیا جائے۔
نکاح کے آداب: نکاح کے متعدد آداب ہیں، ان سب میں اہم ادب یہ ہے کہ نکاح میں نیت اچھی رکھے، اس لیے کہ دنیا کے جائز کام میں بھی اگر نیت اچھی ہو تو اس پر