ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
اپنے موقع محل پر جانا ہوگا، جسم تو عناصرِ اَربعہ سے بنا تھا اُن ہی میں کسی نہ کسی طرح اِس کو شامل ہونا ہے، اور رُوح اِس عالَم کی پیداوار اور عناصر سے بنی ہوئی نہیں ہے وہ عالَمِ بالا کی پیداوار ہے عناصر سے پاک ہے اِس کو الگ ہونے کے بعد اپنے ہی موقع و محل میں جانا ضروری ہے وہ عالَمِ بالا ہے اِسی کو ''آخرت '' کہتے ہیں جو اِنسان کی رُوح کا اَوّل و آخری عالَم ہے کہ لا محالہ وہ جسم سے ملنے سے پہلے کہیں نہ کہیں موجود ہوگی کہیں نہ کہیں بنائی گئی ہوگی، وہیں جسم سے اَلگ ہونے کے بعد اُس کا پہنچنا لازمی اَمر ہے، یہی عالمِ آخرت ہے یہی دُوسری زندگی ہے کیونکہ ایک عالیشان مخلوق یعنی آدمی کو لا محالہ ایک ایسا عالیشان زندگی کا مقصد عطا ہونا ضروری ہے جو دُوسری تمام مخلوقات سے اعلیٰ ہو وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت اور وہ دُوسرے عبادت گزاروں سے حد درجہ کمال کی عبادت ہونی ضروری ہے جو تصادم سے کامل ہوتی ہے، تصادم کا موقع و محل عالَم ِ عنصریات ہے،دُنیا ہے، اِس کام کے واسطے یہاں عارضی قیام ،مقصد کی تکمیل ،تصادم پر غلبہ حاصل کر کے کام کے لیے بھیجا گیا ہے، کام اور اِمتحان یعنی ٹکراؤ کا ہی یہ مقام ہے، آخری سانس تک کام کی گنجائش دینا ضروری ہے تو جزاء سزاء واپسی پر حساب مکمل ہونے پر ہی ہونی ضروری ہے، درمیان کی تنگی ترشی حقیقی سزائیں نہیں نہ فراخی و عیش حقیقی اِنعامات ہیں یہ سب معمولی باتیں ہیں، نہ یہاں سزائیں کامِل نازل کی گئی ہیں نہ کامِل اِنعامات، ردّی خانہ میں ہر چیز ردّی ہی پھینکی جاتی ہے۔ اَب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جب آدمی اپنے خالق کی عبادت کے لیے ہے توکیا جس طرح بھی وہ اپنے خیال میں خالق کی تعظیم و عبادت تصور کرے ، کافی ہے یا نہیں ؟ تو کھلی بات ہے کہ عقل ہر اِنسان کی کم و بیش اور مختلف ہوتی ہے، لا محالہ اُس کے تجویز کیے ہوئے عبادت و تعظیم کے طریقے بھی کم و بیش اور مختلف ہوں گے جس سے تمام دُنیا میں بے اِنتہا اِختلافات وتفریقات اور فتنہ و فسادات کا بازار گرم ہو کر زندگی کو پریشانیوں اور جھگڑے فسادات کا مرقع بنا کر چھوڑ دے گا۔ دُوسری بات یہ ہے کہ عقل کے اِختلافات اِس کی دلیل ہیں کہ صحیح طریق یقینی طور سے کسی کا