ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
''رحمن'' کو درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے نہایت ہی لطیف اور مؤثر پیرایہ میں رحم اور قرابت کی وہ حیثیت بیان فرمائی ہے جو اِسلامی تعلیمات میں اِس کو حاصل ہے، بڑے درخت کی جڑ میں بھی شاخیں ہوتی ہیں جن کو ''پیل'' کہا جاتا ہے، یہ زمین کے اَندر پھیل ہوئی ہوتی ہیں اور اِن کا جال دار سلسلہ زمین کی رگوں میں گندھا ہوا دُور تک چلا جاتا ہے۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا اَلرَّحِمُ شِجْنَة مِّنَ الرَّحْمٰنِ یعنی لفظ رحمن کو ایک درخت فرض کیا جائے تو یہ سمجھو کہ رحم اور قرابت اُسی درخت کی جال دار پیل ہے۔ اِس کی تفسیر یا تاثیر خود آنحضرت ۖ کے الفاظ میں یہ ہے : مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہ (بخاری شریف رقم الحدیث : ٥٩٨٨) ''جو تجھ سے جڑے میں اُس سے جڑوں گا، جو تجھ سے توڑے، میں اُس سے توڑلوں گا۔'' یعنی اللہ تعالیٰ نے رشتہ داری اور قرابت کو جوشجرِ رحمت کی ایک پیل ہے یہ ضمانت دے دی ہے کہ جو تجھ (یعنی رحم و قرابت) کو جوڑے گا اور اُس کے حقوق اَدا کرے گا اُس سے اللہ تعالیٰ بھی اِمداد واِعانت اور رحم و کرم کا رابطہ قائم رکھے گا اور جو رشتہ داروں سے توڑے گا اور اُن سے براسلوک کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اُس سے اپنے فضل وکرم کا رابطہ منقطع کرے گا۔ زندگی کے دو سِرے : (٢) اِنسانی زندگی کا ایک سر اخالق سے جڑا ہوا ہے، دُوسرا مخلوق سے، جس کی اِبتداء ماں باپ سے ہوتی ہے۔ اِسلام کا حقیقت پسندانہ مطالبہ یہ ہے کہ اِنسان خالق کے حق میں اِنصاف اور خودداری سے کام لے (جو خالق نہیں ہے اُس کو خالق نہ قرار دے، جو خدا نہیں ہے اُس کے آگے گردن جھکا کر اپنی خودی کوذلیل نہ کرے) دُوسری طرف ماں باپ کا اِحسان مان کر اِحسان کابدلہ اِحسان سے دے۔ (وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَلِدَیْنِ اِحْسَانًا ) ( سُورہ بنی اسرائیل : ٢٣ ) ''تمہارے رب نے یہ فیصلہ کردیا (اور یہ بات ٹھہرادی) کہ اُس (خالق )کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور یہ کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ '' اِس آیت کی اہمیت کا اَندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ اِحسان بالوالدین کو مطالبہ توحید کے ہمدوش