ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
ہوجاتا ہے، کوئی وصف اور کوئی کمال باقی نہیں رہتا بلکہ کسی کام کا نہیں رہتا، ہر قوم کسی نہ کسی طریقہ پر اُس کو اپنے درمیان سے اَلگ کر کے دفن کردیتی ہے اور بعض قومیں تو جانوروں کو کھلادیتی یاآگ میں جلا ڈالتی ہیں اور جب تک رُوح باقی ہے گوبیماریوں سے بے اِنتہاء کمزور ہی ہو وہ بے کار نہیں قرار دیا جاتا ہاتھ کٹ جائیں، پاؤں کٹ جائیں، آنکھیں جاتی رہیں، کان پٹ ہوجائیں، عقل رُخصت ہوجائے، بالکل دیوانہ ہوجائے، کسی کام کا بلکہ کسی غذا دواء کے بھی قابل نہ رہے مگر رُوح اُس میں ہو تو آدمی رہتا ہے، علاجات ہوتے رہتے ہیں، بس رُوح نکلی اور آدمی ہونے سے نکل گیا۔ تو اصل آدمی رُوح ہے جسم نہیں، عقل و ہوش نہیں، رُوح ہی اَصل ہے، جسم تو رُوح کے لیے ایسا ہی ایک لباس ہے جیسے جسم کے لیے سردی گرمی کا لباس کہ سردی رُخصت ہوئی اُس کا لباس رُخصت ہوا، گرمی کے لیے گرمی کا لباس آگیا جیسا کہ عرض ہو چکا ہے کہ زندگی کے اَصل مقصد یعنی نہایت کمال کی عبادت کے لیے تصادم و ٹکراؤ کی ضرورت تھی، وہ خواہشات کے مجموعہ یعنی نفس سے اور خواہشات کے مقام دُنیا ہی میں حاصل تھی جہاں شیطان بھی ہے تو اُس کو یہ جسم یعنی خواہشاتی لباس صرف یہاں کے اِس کام کے لیے عطا کیا گیا ہے، جب یہاں کا کام ختم ہوجائے گا نہ خواہشات کے بقاء کی ضرورت رہے گی نہ خواہشات کے لباس کی، اَب اگر ہوگی تو کسی اور لباس کی ضرورت ہوگی جو اِس کے علاوہ ہوگا۔ ''موت'' نام ہے رُوح کے جسم سے اَلگ ہوجانے کا، تمام عالَم پر نظر کیجیے ہر چیز میں یہی ہوتا ہے جب اُس کے اَجزاء اَلگ اَلگ ہوجاتے ہیں ہر ہر چیز اپنے اپنے موافق مقام و جگہ پر پہنچ جاتی ہے سائنسدان کہتے ہیں کہ پانی کے دو جز ہیں: آکسیجن اور ہائیڈروجن، جب تک دونوں ملے ہوئے ہیں ''پانی'' ہے، جب اَلگ اَلگ کر دیے پانی نہ رہا اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر جا پہنچتا ہے ،ایسے ہی ''تخت'' نام ہے لکڑی کے پایوں تختوں لوہے کی کیلوں پٹیوں کا جب اِن کو اَلگ اَلگ کر دیں گے تخت ختم ہو کر لکڑی لوہا اَلگ اَلگ اپنے اپنے مقام پر چلے جائیں گے اور اِسی طرح ہر وہ چیز جو دو چار چیزوں سے مرکب کی ہوتی ہے جب الگ الگ اَجزاء کر دیے جائیں گے ہر جزء اپنے اپنے موقع و محل پر چلی جائے گی، گویا ہر جز کے لیے اپنے موقع محل پر جانا لازمی ہے۔ رُوح و جسم بھی جب اَلگ ہوں گے اُن کو اپنے