ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
وقال ابن حجر فی ''النکت علی کتاب ابن الصلاح'' حکم الاحادیث التی فی کتاب ابن خزیمة وابن حبان صلاحیة الاحتجاج بہا لکونھا دائرہ بین الصحیح والحسن، فالم یظھر فی بعضھا علة قادحة۔ اِن تمام حوالوں کا لب ِلباب یہ ہے کہ اِبن حبان جرحِ رجال میں متشدد تھے۔ (٢) متشدد فی جرح الرجال متساہل فی تعدیل الرجال ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو بہت سے ایسے ثقات کو خاطر میں نہیں لاتا جن کو دُوسرے ائمہ حدیث علی الرأس والعین رکھتے ہیں۔ جہاں تک رہی یہ بات کہ اُن کی کتاب میں حدیث ِحسان بھی ہیں تو اِس کا جواب یہی ہے کہ یہ ایک اِصطلاح کا تفاوت ہے ،اِبن حبان کے یہاں حسان پر بھی صحاح کااِطلاق ہو سکتا ہے اور یہ مشہور ہے کہ '' لامشاحة فی الاصطلاح '' شرائط اِبن حبان فی صحیحہ : (١) العدالة فی الدین بالستر الجمیل (٢) الصدق فی الحدیث بالشہرة فیہ (٣) العقل بما یحدث من الحدیث (٤) العلم بما یحیل المعنی من معانی ما روی، (٥) تعری خبرہ من التدلیس ۔ علامہ سیوطی نے فرمایا کہ اِبن حبان نے اپنی شرائط کو نبھایا ہے اور حافظ اِبن حجر فرماتے ہیں کہ صحیح اِبن حبان کی روایات سے دلیل پکڑنا یعنی موضع اِستشہاد کے طور پر پیش کرنا ٹھیک ہے۔ عجالہ نافعہ میں حضرت شاہ عبد العزیز صاحب رحمة اللہ علیہ نے طبقہ ثالثہ میں صحیح اِبن حبان کے ساتھ کتب ِطحاوی کا تذکرہ بھی کیا، گزشتہ سطور میں صحیح اِبن حبان کے بارے میں معروضات پیش ہو چکیں۔ جہاں تک تعلق ہے کتب ِ طحاوی کا اور پھر خصوصًا اِمام طحاوی کی کتاب طحاوی شریف المشہور بشرح معانی الآثار یہ بھی طبقہ ثالثہ سے اُوپر کی کتاب ہے جیسا کہ اِس کے بارے میں آسمانِ تحقیق کے ایک ستارے گویا ہیں جن کا اہلِ علم میں تذکرہ اِن اَلقابات سے کیا جاتا ہے :