ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
حکم اللہ اور اللہ کے رسول ۖنے نہ بتلایا ہو اور لوگ اُس کی تعیین میں اِختلاف کرنے لگے ہوں جیسے آیاتِ متشابہات وغیرہ، اِن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو بلکہ اِن کی حقیقی مراد کا تعین اللہ کے سپرد کردو وہی بہتر جاننے والے ہیں۔ علم تین ہیں : عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلْعِلْمُ ثَلٰثَة آیَة مُّحْکَمَة اَوْ سُنَّة قَائِمَة اَوْ فَرِیْضَة عَادِلَة ، وَمَاکَانَ سِوَی ذَالِکَ فَھُوَ فَضْل۔ ( اَبوداود ٢/٤٣ کتاب الفرائض، ابنِ ماجہ ص٦ ، مشکوة ص٣٥ ) ''حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا علم تین ہیں(١)آیت ِمحکمہ(٢)سنت ِ قائمہ(٣)فریضۂ عادلہ، اِن کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے۔ '' ف : حدیث پاک کا مطلب (واللہ اَعلم) یا تو یہ ہے کہ علم ِ دین کی تین قسمیں ہیں: آیت ِمحکمہ کا علم، سنت ِ قائمہ کا علم اور فریضہ ٔعادلہ کا علم یا یہ مطلب ہے کہ علمِ دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ (١) آیت ِ محکمہ : قرآنِ پاک کی وہ آیات جن کا حکم منسوخ نہ ہو اور مراد بھی واضح ہو چونکہ اصلِ قرآن آیات ِ محکمات ہی ہیں اِس لیے اِس موقع پر صرف اِن ہی کا تذکرہ کیا گیا۔ (٢) سنت ِ قائمہ : وہ اَحادیث جن کا ثبوت صحیح طریق سے ہوچکا ہو اور وہ غیر منسوخ اور معمول بہا ہوں۔ (٣) فر یضہ ٔعادلہ : اِس سے مراد اِجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی ہیں، اِن کو فریضہ اِس لیے کہا گیا ہے کہ اِن پر بھی اِسی طرح عمل کرنا ضروری ہے جس طرح کتابُ اللہ اور سنتِ رسول اللہ ۖ پر، کیونکہ عَادِلَہ کے معنٰیٰ مُسَاوِیَة کے ہوتے ہیں۔ اِس حدیث شریف میں اِس طرف اِشارہ ہوا کہ دین و شریعت کی بنیاد چار چیزوں پر ہے (١)کتاب اللہ(٢)سنت ِ رسول اللہ(٣)اِجماعِ اُمت (٤)قیاس شرعی، اِن کے علاوہ جو کچھ ہے وہ