ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
منڈیوں کی تمام رونق اِن سب کی بنیاد اُس اِینٹ پر ہے جس کو فیملی، خاندان، گرہستی یا عیال داری کہا جاتا ہے جس کو قرآن نے نَسَبْ ا ور صِہْرکے دو لفظوں سے تعبیر کیا ہے۔ آپ عیال داری کے بار کو ہلکا کرناچاہتے ہیں، آپ نسب اور صہر کی نعمت کو ٹھکراتے ہیں تو آپ تعمیرو تمدن کی یہ جنت اپنے ہاتھوں سے بر باد کررہے ہیں۔ آج جو لوگ ملکیت کو ختم کر کے خاندانی سلسلہ کو غیر فطری قرار دے رہے ہیں، کیا وہ ایسی زندگی کو دعوت نہیں دے رہے ہیں جہاں تمدن کا نام و نشان نہ ہو اور اِنسان وحشی جانور کی طرح پہاڑوں اور جنگلوں کو اپنا مسکن بنائے۔ اگر مادر پدر سے آزاد کرکے بچوں کی پرورش جنرل وار ڈوں میں ہونے لگے تو اُن کی اگلی یا اگلی سے اگلی نسل کی دلچسپیاں صرف جنسی خواہشات میں محدود ہوجائیں گی جن کو وہ آبادیوں کی بجائے جنگلوں میں آزادی سے پورا کر سکیں گے۔ ممکن ہے کوئی صاحب اِسی کو فطرتِ اِنسانی قرار دیں مگر پہلے اُن کو اِس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ اُن کے دماغ میں خلل نہیں ہے اور اُن کا مزاج صحیح ہے۔ یرقان زدہ سفید کو زرد ہی دیکھتا ہے لیکن یہ اُس کی نظر کی خرابی ہوتی ہے، بیمار آدمی میٹھے کو کڑوا کہنے لگے تو اِس سے مٹھاس کی فطرت نہیں بدل جاتی، دُنیا ایسے مریض کی تصدیق نہیں کرے گی بلکہ اُس کو علاج کرنے کا مشورہ دے گی اور اُس کے حق میں سب سے بڑی خیر خواہی یہی ہوگی کہ اُس کو کسی نرسنگ ہوم میں داخل کیا جائے۔ رشتہ داری کی اہمیت اور خاتمہ ٔ ملکیت کے تمدن کُش نتائج : (١) ''رحمن'' اللہ کا نام ہے (بہت مہر بانی کرنے والا) قرآنِ پاک کی سب سے پہلی سورت میں(رَبِّ الْعٰلَمِیْن )کے بعد (اَلرَّحْمٰنْ ) ہی آیاہے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )کسی بھی اچھے کام کو شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھی جاتی ہے تو''اللہ'' کے ساتھ یہ نام ''الرحمن'' بھی لیا جاتا ہے( بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) قرآن کریم میں ہر سورت کے شروع میں (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)لکھی جاتی ہے اور تلاوت کے وقت پڑھی جاتی ہے ،''رحم'' کے معنی مہربانی ہیں اور عربی میں رشتہ داری کو بھی رحم کہا جاتا ہے ''ذی رحم'' رشتہ دار۔ آنحضرت ۖ نے لفظ