ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
العلامة، الفرد الفرید،ختام المحققین محمد انور شاہ الکشمیری قال : ویقاربہ (ای کتاب ابی داود) عندی کتاب الطحاوی المشہور بشرح معانی الآثار فان رواتھم کلہم معروفون، وانِ کان بعضھم متکلما فیہ ایضا۔ (فیض الباری) اِس مقام پر چشتی صاحب اطال اللہ بقاء ہ بالعافیة محض شارح ومترجم کے حیز سے نکل کر نقاد کا اُسلوب اِختیار کرتے تو کیاہی اچھا ہوتا جبکہ چشتی صاحب مدظلہم اِس بات کا بخوبی اِدراک رکھتے ہیں کہ عجالہ نافعہ میں جو طبقہ ثالثہ کی تعریف کی گئی ہے ''طحاوی شریف'' اُس سے اُوپر درجے کی کتاب ہے جیسا کہ حضرت الاستاذ چشتی صاحب مدظلہم نے اِس مقام پر حاشیہ میں علامہ زاہد الکوثری کا اِرشاد نقل کیاہے جس سے یہی متر شح ہوتا ہے کہ حضرت مدظلہم بھی اِس کو طبقہ ثالثہ سے اَعلیٰ مانتے ہیں۔ آمدم بر سرِ مطلب : ''فوائد ِجامعہ'' بر ''عجالة نافعة'' اِنتہائی نفع بخش کتاب ہے اِس میں جو کچھ ہے اُس کا اِجمالی خاکہ تو پیش ہو ہی چکا،نامور محدث صاحب ِمعارف السنن علامہ بنوری نے اِس کتاب کے بارے میں اپنے خیال کا اِظہار یوں فرمایا ہے : ''محقق کا رسالہ جو مصطلح اہلِ حدیث کی مباحث میں ہے یہ حدیث کی کتابوں اور علوم ِ حدیث سے وابستگی رکھنے والوں کے لیے اِبتدائی راستہ ہے۔ '' بلا شبہ کتاب اِنتہائی پُر مغز سطر سطرمعلومات کا گنجینہ ہے، تعجب کی بات ہے کہ جب کتب کی دستیابی جوئے شیر لانے کے مترادف تھی اُس وقت صرف ایک عرضی پر ایک ایسے موضوع پر قلم اُٹھانا جس کا رواج ہندوستان میں نہ تھا پھر خالص فنی مبادیات کو قلمبند کرنا اور اِتنی کامیاب و مقبول سعی جس کی حسن ِ ترتیب شاہ صاحب کی بالغ نظری اور تعمق ِ علمی کا منہ بولتا ثبوت ہو اور اُس پر مستزادیہ کہ صرف ایک ١ ( باقی صفحہ ٦٣ ) ١ واضح رہے کہ یہ مقالہ شاہ صاحب نے اپنے ایک شاگرد قمر الدین کی درخواست پر اُن کے لیے علم حدیث کی مبادیات پر مشتمل لکھا تھا ۔