ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
سخت ترین سزاء کا مستحق ہونا لازمی ہے بلکہ جب اُس نے حتی المقدور ہمیشہ کے لیے کرنے کے قصد سے دُوری و مخالفت اِختیار کی اور جن کے اِستعمال کا حق نہ تھا ہمیشہ ناحق اِستعمال کرنا چاہا اور بے دھڑک کیا تو اُس کی سزا بھی ہمیشہ تک ہونی ضروری و اِنصافی ہے، پھر آخر وقت تک کام کی گنجائش دے کر واپسی پر ہی پوری سزاء و جزاء ہونی قرین ِعدل و اِنصاف ہے (بلکہ شفقت ِ عظیمہ ہے کہ زندگی کے آخری لمحہ تک کام کی اور تلافی ٔ مافات کی گنجائش دے دی) اِسی لیے اِس دُنیا میں ایسے شدید جرم کی شدید ترین سزا جو اُس کے موافق تھی اَبدی تھی نازل ہی نہیں کی گئی، وہ سزا بھی ہمیشہ کی اُسی اصلی مقام پر ہوگی جہاں سے اُس کو بھیجا گیا تھا مگر معمولی معمولی گو شمالیاں الگ چیز ہیں۔ ایسے ہی جس نے اِن سے حسب ِضرورت کام لیا اور اپنے اصلی مقصد کو پوری طرح اور ہمیشہ تک اَنجام دینے کے قصد سے پوری کوشش سے کام کیا، اُس کا اَجرو واِنعام بھی ہمیشہ کے لیے ہونا عدل واِنصاف ہے (کہ ہمیشہ کے عزم و قصد سے ''جرم '' و''اِطاعت'' ہمیشہ کے ہی ''اَجرو سزائ'' کی مستحق ہے اور جب یہ عالَم اور یہ زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں تو یہاں کی کوئی سزا و جزاء بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوسکتی) (خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا)ہمیشہ کے لیے اُس میں رہیں گے قرآنِ مجید نے دونوں قسم کے لوگوں کے لیے فرمایاہے کہ ہمیشہ کے قصد سے مقصد کے موافق زندگی گزارنے والے کے لیے ہمیشہ کے اِنعامات اور ہمیشہ کے قصد سے مقصد سے دُور اور مخالف ہوکر اور کام کی ضرورت کی چیزوں کو ہی مقصد بنا لینے اور اُن میں منہمک ہوجانے والے کو ہمیشہ کا عذاب ہوگا۔ اور یہ چیز تو عقل کے بالکل خلاف ہے کہ مقصد کے مخالف کے لیے کسی چیز کو کفارہ قرار دینے سے کھلی چھٹی دے دی جائے کہ جس قدر جرم چاہے کر لے کچھ نہ ہوگا۔ ٭ دُوسری، تیسری بات آپ نے لکھی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے آپ قائل نہیں ہیں، نہ وہاں کی جزاء و سزاء کے۔ تو جناب یہ بات بھی خوب غور کرنے کی چیز ہے، ''آدمی'' نام ہے رُوح اور جسم کے مجموعہ کا اور دونوں میں سے اَصل چیز رُوح ہے، جب آدمی میں رُوح نہیں رہتی تو وہ بالکل جمادات کے موافق