ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
صحابیت بالا تراَز تنقید : پھر جیسے فضاء تک کوئی گندگی نہیں پہنچتی اور پہنچائی بھی جائے تووہ لوٹ کر پہنچانے والے ہی پر گرتی ہے فضاء اِس سے گندی نہیں ہوتی، ایسے ہی حضرات ِصحابہ کا طبقہ جو رُوحانی فضاء کی مانند ہے اُمت کی تنقیدوں سے بالا تر ہے ،اگر اُن کی شان میں کوئی طبقہ سب و شتم یا گستاخی یا سوئِ اَدب یا جسارت وبے باکی یااُن پر اپنی تنقیدی تحقیرکی گندگی اُچھالے گا تو اُس کی یہ ناپاکی اُس کی طرف لوٹ آئے گی، اِس فضائِ شفاف پر اُس کا کوئی اَثر نہ ہوگا۔ بہرحال حضراتِ صحابہ فضائِ قریب کی مانند ہیں کہ اُنہیں شفافی میں بھی آفتاب سے مناسبت ہے وہ آفتابِ نبوت سے نزدیک تر بھی ہیں، بلا واسطہ اُس سے ملحق بھی ہیں، وہ زمین کی کدورتوں سے بالا تر بھی ہیں اور وہ آفتاب ِنبوت کے نور میں فانی بھی ہیں کہ اُس نور کی نمائشگاہ بن کر رہ گئے ہیں جن میں اپنی خصوصیت بجز اِنفعال اور قبولِ حق کے دُوسری نہیں رہ گئی تھی۔ پس صحابہ کی اِس اَعلیٰ ترین زندگی کا نور تیز بھی ہے اور پیغمبر سے اَقرب تر اور اَشبہ تر بھی ہے کہ اُس نے نبوت کی زندگی سے متصل رہ کر اُس کی شعاعوں کا نور قبول کیا ہے اِس لیے یہ زندگی نہ صرف عزیمتوں کی زندگی اور اُلو العزمانہ زندگی ہے کہ ناجائزات کی آڑ لیے بغیر عمل کے اَعلیٰ ترین حصہ کو ہی اپنا لیا جائے اور نفس کی راحت طلبوں کو خیرباد کہہ کر عملی مجاہدہ و ریاضت کوہی زندگی بنالیا جائے بلکہ یہ زندگی جامع الاضدادبھی ہے جو کمالِ اِعتدال لیے ہوئے ہے کہ ایک طرف نفس کشی بھی اِنتہائی اور ساتھ ہی اَدب و شریعت اور اِتباعِ سنن ِنبوی ۖ بھی اِنتہائی اور ایک طرف طبعی جذبات بھی قائم اور دُوسری طرف عقلی و داعی اور ملکیت بھی غالب ،اِس کمالِ اِعتدال و جامعیت کے ساتھ یہ زندگی صحابہ کے سوا اُمت کے کسی طبقہ کو طبقاتی حیثیت سے نصیب نہیں۔آحاد و اَفراد اِس زندگی کے حامل نظر پڑیں گے جس میں شرفِ صحابیت کے سوا سب کچھ ہوگا لیکن طبقہ کا طبقہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا ہو اور ہمہ وقت اِخلاص و معرفت کی حدِکمال کو طے کیے ہوئے ہو، طبقہ صحابہ کے سوا دُوسرا نہیں جنہوں نے گھر بار چھوڑ کر اور نفس کی خواہشات سے منہ موڑ کر صرف و صرف رضائے حق کو اپنی زندگی بنایا۔