ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
صحابیت ( حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ) آفتاب ِنبوت سے اِستفادہ کے مراتب : پھر آفتاب ہی کی اِس تمثیل سے آفتاب ِ نبوت کی تاثیر و تربیت اور تعلیم وتمرین سے اُمت کے اِستفادہ اور منور ہونے کے متفاوت درجات ومراتب بھی کھل جاتے ہیں جن کا معیار آفتاب سے قرب اور بُعد ہے یعنی جو اِس سے قریب تر ہے وہ اُتنا ہی نورانی تر اور متاثر تر ہے اور جتنا آفتاب سے دُور ہے اُتنا ہی اُس کے فیض سے کم مستفید ہے۔ درجۂ صحابیت : مثلاً طلوعِ آفتاب کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اور سب سے پہلے آفتاب کے آثار سے متاثر ہوتی ہے وہ فضاء ہے، وہ چونکہ خلقةً اپنی ذات سے شفاف ہے اور اُدھر آفتاب کے سامنے بلا واسطہ حاضر ہے اِس لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اُس کے نور وحرارت کا اَثر لیتی ہے، وہ اِس درجہ منور ہوتی ہے کہ باوجودیکہ اِس کے چمک اُٹھنے کے خود اُس کی چمک آنکھوں کو نظر نہیں آتی بلکہ آفتاب ہی کی دُھوپ اور شعائیں نظر پڑتی ہیں۔ اگر فضا ء میں نگاہ اُٹھائی جائے توفضاء کا جو حصہ بھی سامنے آئے گا اُس میں سے آفتاب ہی دِکھائی دے گا خو دفضاء کی ہستی نظر نہ پڑے گی گویا وہ اُس کے نور میں اِس درجہ مستغرق اور فانی ہوجاتی ہے کہ اُس کا اپنا تنوّر کسی کی آنکھ میں نہیں آتا بلکہ آفتاب اُس میں سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا بلا واسطہ دِکھائی دے رہا ہے حالانکہ فضاء اپنی بے حد وسعت کے ساتھ بیچ میں حائل ہے۔ ٹھیک یہی صورت رُوحانی آفتاب سے اِستفادہ کی بھی ہے کہ اُس کے عالمگیر آثار سے متاثر تو سب ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ وہ طبقہ متاثر ہوتا ہے جو بلا واسطہ اُس سے قریب ہو کر نور لیتا ہے اور وہ طبقہ صحابہ کرام کا طبقہ ہے جو فضاء کی مانند ہے کہ زمین سے بالا تر ہے اور فلک ِشمس یعنی آسمانِ نبوت