ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
طبعی مرغوبات کو شرعی مطلوبات پر قربان کر دیا، موطن ِطبیعت سے ہجرت کر کے موطنِ شریعت میں آکر بس گئے اور شرعی مرادوں کی خاطرنفس کی حیلہ جوئیوں اور راحت طلبیوں سے کنارہ کش ہو کر عزمِ صادق کے ساتھ ہمہ وقت مرضیات ِ اِلٰہی اور سنن ِنبوی کی پیروی میں مستغرق ہوگئے اور اِسی کو اپنی زندگی بنالیا۔اِس جامع اور جامع اَضدادِ زندگی کاسب سے زیادہ نمایاں اور حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ کلیةً تارکِ دُنیا بھی تھے اور رہبانیت سے الگ بھی، دُنیا اور دُنیا کے جاہ و جلال، دَھن و دولت، حکومت وسیاست ،گھر بار و زمین جائیداد کے ہجوم میں بھی تھے اور پھر اَدائے حقوق میں بے لاگ بھی۔ یہ زن، زر، زمین اِن کے تصرف میں بھی تھی اور پھر قلبًا اِن سب چیزوں سے بے تعلق اور کنارہ کش بھی، دُرویش کامل بھی ہیں اور قباء ِشاہی بھی زیب ِتن ہے ،حکمران بھی ہیں اور دلق ِگدائی بھی کندھوں پر ہے، ممالک بھی فتح کر رہے ہیں اور فقیری کی خو بھی بدستور قائم ہے۔ یوں بہم کس نے کیے ساغر و سنداں دونوں اَنبیاء علیہم السلام کی یہی زندگی ہے کہ بشر بھی ہیں اور مَلَک بھی، نہ طبائع کو ترک کرتے ہیں نہ عقل و فراست کے تقاضوں سے ایک اِنچ اِدھر اُدھر ہوتے ہیں، خالص طبعی جذبات کی پیروی حیوان کا کام ہے اور طبعیات سے کلیةً باہر رہ کر محض عقلِ کلی کی پیروی فرشتوں کا کام ہے لیکن طبعیات کو بحالہ قائم رکھ کر اُنہیں عقلی شعور کے ساتھ عقل کی ماتحتی میں اَنجام دینا اور حدود سے تجاوز نہ کرنا یہ اِنسان کا کام ہے۔ مگر اِنسان کو کامل فرما کر اُس کے تقدس و برگزیدگی کو نمایاں کیا گیا اِس لیے جس طبقہ کے اَفعال، قویٰ ،عقائد، اَحوال، اَقوال سب میں یہ کامل اِعتدال رَچا ہوا ہو، وہی طبقہ کامل اِنسانیت کا طبقہ کہلائے گا۔ سو طبقاتی حیثیت سے یہ کمال بالذات تو اَنبیاء میں ہوتا ہے اور بالعرض بحیثیت طبقہ اُن کے صحابہ میں اُن کے بعد طبقاتی حیثیت ختم ہوجاتی ہے، صرف اِنفرادی حیثیت باقی رہ جاتی ہے اور وہ بھی اِس مقام کی نہیں جس پر یہ طبقہ فائز ہوتا ہے پس صحابہ دَر حقیقت نبوت کا ظلِّ کامل تھے جن کے طبقہ سے