ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
سے فرو تر ہے، وہ فضاء کی طرح خلقی طور پر خود شفاف ہے جو محض اُس کے نور ہی کو دِکھلادینے کی نہیں بلکہ عین آفتاب کو دِکھلانے کی کامل اِستعداد رکھتا ہے جیسا کہ اَحادیث میں آپ ۖ نے فرمایا کہ سارے نبیوں کے صحابہ میں میرے صحابہ منتخب کر لیے گئے یا جیسے عبداللہ اِبن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُن کے دِل شفاف تھے، اُن کا علم گہرا تھا، اُن میں تکلفات نہ تھے ،اُنہیں اقامت ِدین کے لیے پوری اُمت میں سے چن لیا گیا تھا، اُن کا نقش ِقدم واجب الاتباع ہے وغیرہ، جس سے حضراتِ صحابہ کی کمال قابلیت کھلتی ہے جو اُنہیں اَنوارِ نبوت کو جذب کرنے کے لیے عطا ہوئی تھی پس وہ فطری شفانی اور کمالِ قرب کے لحاظ سے بمنزلہ فضاء کے ہوئے جو شفاف ہے اور ساری دُنیاکی نسبت سے آفتاب سے قریب تر بھی ہے کہ بلاواسطہ نور ِ آفتاب جذب کرتی ہے۔ پس اُنہوں نے اُن شفاف سینوں سے اِس درجہ آفتاب ِ نبوت کا نور و اَثر قبو ل کیا کہ فضاء کی طرح سرتاپا نور بن گئے اور جیسا کہ فضاء آفتاب سے متصل اور ملحق ہو کر اِس درجہ منور ہوجاتی ہے کہ وہ خود نظر نہیں آتی یعنی وہ خود اپنے کو نہیں دکھلاتی بلکہ صرف آفتاب اور اُس کی شعاعوں اور چمک دمک ہی کو نمایاں کرتی ہے ایسے ہی صحابہ اپنی فطری قابلیتوں کی بناء پر اِس درجہ پاک قلوب، عمیق العلم ، قلیل التکلف اور بے غل وغش بنادیے گئے تھے کہ گویا اُن میں خود اُن کی کوئی ذاتی خصوصیت باقی نہیں رہی تھی، وہ صرف سنن ِنبوی کے مجسم نمونے بن گئے اِسی لیے حضور ۖ نے اُن کے عقیدہ وعمل کو اپنے عقیدہ وعمل کے ساتھ ختم کر کے اُنہیں معیارِ حق فرمایا اور اِعلان فرمادیا کہ سنن ِنبوت اور سنن ِصحابہ ایک ہی ہیں جس سے نمایاں ہوجاتا ہے کہ صحابہ کی دینی خصوصیات خصوصیاتِ نبوی تھیں چنانچہ اُمت کے بہتر(٧٢) فرقوں کے بارے میں جب حضور ۖ سے یہ سوال کیا گیا کہ اِن بہتر (٧٢)میں ناجی فرقہ کون سا ہے توفرمایا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ جن پر آج کے دِن میں اور میرے صحابہ ہیں۔ گویا اپنے عقیدہ وعمل کے ساتھ اُن کے عقیدہ و عمل کو اِس طرح مِلا کر بتلایا کہ اُن کے عقیدہ و عمل اور حضور ۖ کے عقیدہ و عمل کی نوعیت ایک ثابت ہوگئی اور فرقوں کے حق وبال ہونے کا معیار آپ ۖ نے خود اپنی ذاتِ بابرکات اور حضرات ِ صحابہ کو ٹھہرادیا۔