ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
اِعتکاف میں بیہودہ بکواس کرنی بھی منع ہے نیز بناوٹی طور پر خاموش ہو کر بیٹھنا بھی مکروہ ہے، ہر محلہ کی مسجد میں ایک شخص کو اِعتکاف کرنا چاہیے، یہ سنت ِکفایہ ہے اگر ایک شخص نے اِعتکاف کر لیا تو سب سے یہ سنت اَدا ہوگئی، اگر موقع ہوتو جامع مسجد میں اِعتکاف کرنا افضل ہے۔ شب ِقدر : سیّدناحضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ لیلة القدر دو ہیں: ایک تووہ جس کے متعلق قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے(فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ) اِس شب میں تمام کاموں کی تقسیم ہوتی ہے، یہی وہ شب ہے جس میں سارا قرآنِ کریم ایک دفعہ ہی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف منتقل کر دیاگیا تھا چنانچہ اِرشادِ ربانی ہے ( اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)ہم نے اِس کو لیلة القدر میں نازل کیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ رات سال بھر میں آتی ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ رمضان میں ہی ہو، ہاں غالب گمان یہی ہے کہ رمضان شریف میں ہوتی ہے۔ دُوسری شب ایک اور بھی ہے اُس کو بھی ''لیلة القدر'' کہا جاتا ہے اس میں رُوحانیت کی شعائیں منتشر ہوتی ہیں، عالمِ اسفل کی طرف ملائک کا دورہ ہوتاہے اَب اگر اُس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہیں تو آپس میں ایک دُوسرے کے اَنوار کا عکس پڑتا ہے اور ملائک سے خاص قرب حاصل ہوجاتا ہے، شیاطین دُور ہٹ جاتے ہیںدُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ نیز اَحادیث میں ہے کہ فرشتے مصافحہ کرتے ہیں اور ترغیب و ترہیب میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے غیبی مصافحہ کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ دِل پر رقت طاری ہوتی ہے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں یہ شب جیسا کہ صحیح اَحادیث میں وارِد ہے اِکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا اُنتیسویں ہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب اپنی اِس تحقیق پر علماء کے اِختلاف کو اِس طرح منطبق فرماتے ہیں کہ اگر لیلة القدر سے مقدم الذکر لیلة القدر مراد ہو تو بے شک اُس کے لیے کوئی مہینہ معین نہیں نہ کوئی شب مقرر ہے اور اگرلیلة القدر سے دُوسری لیلة القدر مراد ہوتو وہ رمضان شریف کے عشرہ ٔ اَخیرہ کی مذکورہ بالا تاریخوں