ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
اِجمالی اِیمان نجات کے لیے کافی ہے : ایک لڑکی تھی ایک بچے کا بھی قصہ ہے اِسی طرح کا،رسول اللہ ۖ کے سامنے اُس بچی کا قصہ پیش آیاآپ نے اُس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اُس نے آسمان کی طرف اِشارہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ مومن ہے، کیونکہ عام سمجھ جو ہے وہ اِتنی ہی ہے اِس سے آگے سارے کے سارے معرفت والے ہوں یہ بہت مشکل بات ہے، سادھی سی بات ہے کہ اللہ ایک ہے ،کہاں ہے ؟ بلندی کی طرف اِشارہ کیا اور بلندی اور نیچاکچھ بھی تو نہیں ہے ،یہ لوگ(خلا باز) چلے جاتے ہیں فضاء میں تو کدھر زمین اُونچی ہے اور کدھر دُوسری چیز نیچی ہے کچھ بھی نہیں لیکن بلندی کے لیے جب اِشارہ کیا جاتا ہے تو اُوپر ہی کی طرف کیا جاتا ہے ۔تو رسول اللہ ۖ نے اِجمالی اِیمان بھی نجات کے لیے کافی قرار دیا ہے اور اِیمانِ اِجمالی ہی عام لوگ سمجھ سکتے ہیں۔تو میت اگرچہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ختم ہوگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے آقائے نامدار ۖ نے بتلایا ہے لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ ١ وہاں جو لوگ اُس وقت ہوتے ہیں اُن کے جوتوں کی آواز بھی اُس کو محسوس ہوتی ہے، اَب یہ محسوس ہونا جوتوں کی آواز ایک تو اِس طرح سے ہے کہ جیسے چھت پر کوئی چل رہا ہو تو آواز محسوس ہوگی، یہ محسوس ہونا تو نہیں بتلایا گیا بلکہ وہ محسوس ہونا تو باطنی طور پر ہے جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی آدمی جا کر سلام کرتا ہے تو مُردہ اُسے جواب دیتا ہے اور اِس میں کسی کا اِختلاف بھی نہیں ہے۔ اِبن تیمیہ جوہیں بڑے متشدد ہیں اور یہ جو اَب حنبلی حضرات ہیں یہ سعودی عرب کے یہ ہیں حنبلی اور تیمی اور وہابی یعنی آخری جو اِن کے یہاں مجتہد گزرے ہیں حنبلی مذہب میں وہ اِبن تیمیہ کے بعد محمد اِبن عبدالوہاب کو مانتے ہیں تو یہ ہیں'' حنبلی تیمی وہابی'' یعنی محمد اِبن عبدالوہاب کے اَقوال کو آخری درجہ دیتے ہیں بڑا درجہ دیتے ہیں تو اِبن تیمیہ وہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اِتنا کہا ہے کہ وہ سنتا ہے اور یہ اپنی طرف سے تفسیر کی ہے اُنہوں نے کہ رَدَّ عَلَیْہِ رُوْحَہ اُس کی رُوح لوٹا دیتے ہیں اُس کو شعور دیتے ہیں اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جسے دُنیا میں پہچانتا تھا اُس کو پہچانتا بھی ہے ۔ ١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ١٢٦