ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
کا بھی میں نے اچھی طرح معائنہ اور مطالعہ کیا ہے، خصوصًا وہ مصاحف جن کا تعلق بر صغیر (ہندو پاک) سے ہے، اُن میں بعض مصاحف تو ایسے بھی ہیں جو کتابت کے لحاظ سے کئی سو سال پرانے ہیں۔ بعد اَزاں بر صغیر میں تیرہویں صدی ہجری (١٢٣٩ھ) میں یعنی اُنیسویں صدی عیسوی (١٨٢٤ئ) میں جب کتابوں اور قرآنِ پاک کی طباعت کا آغاز ہوا تو چندہی سال (١٨٥٠ئ) میں عیسوی تک لکھنؤ، کانپور، آگرا، دہلی، لاہور، حیدر آباد، دکن، کلکتہ اور دیگر بہت سے شہروں میں قرآنِ پاک اور اِسلامی کتب کی طباعت سر اَنجام دینے والی کمپنیوں اور مطابع کاایک جال پھیل گیا تو اُس وقت سے لے کر آج تک جتنی بھی کمپنیوں یا نشریاتی اِداروں نے قرآنِ پاک چھاپے یا چھپوائے ہیں اور اِسی طرح وہ قلمی نسخے جن کا میں نے بغور معائنہ اور مطالعہ کیا ہے، برصغیر کے اُن تمام مصاحف کا رسم الخط اوراُس کا منہج کئی سو سال سے99% تک ایک جیسا چلا آرہا ہے۔ مسجد ِ نبوی کے اِس مذکورہ کتب خانہ میں قرآنِ پاک کے مطبوعہ اور قدیم بے شمار ایسے نسخے محفوظ ہیں جو حج و عمرہ پر آنے والے مسلمانانِ عالَم اَزراہ ِ عقیدت حرمِ نبوی میں بطور ِ ہدیہ رکھواتے رہے، ایک قرآنِ پاک کا نسخہ تو ایسا بھی میری نظر سے گزرا جو بر صغیر کے مصاحف کے منہج اور رسم الخط کے بالکل مطابق ہے مگراُس کی طباعت بر صغیر کے بجائے مصر کے دارُالحکومت قاہرہ میں ہوئی ہے اور ایک ایسا قرآنِ پاک بھی میری نظر سے گزرا ہے جوکہ ''قرآنِ مجید دو ترجمہ مع تفسیر عزیزی (فارسی) وحسنی (اُردو) '' کے عنوان سے چھپا ہے اوربین السطور دو ترجموں میں سے ایک فارسی جبکہ دُوسرا اُردو میں ہے اور حاشیے میں مختصر قراء ٰت بھی بیان کی گئی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اُس کے حاشیے میں رسم الخط کے عنوان کے تحت اُن قرآنی کلمات کا رسم الخط بھی فارسی میں درج کیا گیا ہے جن میں علماء ِ رسم کا اِختلاف ہے اور اِس مصحف میں اِختیار کیے جانے والے رسم کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے۔ برصغیر کے علماء وقراء کی یہ کاوشیں لائق ِ صدتحسین ہیں جو وہ قرآنِ پاک کی خدمت کے سلسلہ میں کرتے چلے آئے ہیں، اُن ہی کوششوں میں سے ایک وہ کوشش بھی ہے جوحضرت مفتی محمدکفایت اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ نے سر اَنجام دی ہے، میں نے ہندوستان سے تاج کمپنی کا چھپا ہوا ایک قدیم نسخہ