ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
اور اگر کسی جاہل کا یہ عقیدہ ہو کہ اِیصالِ ثواب کھانا سامنے رکھنے پر ہی موقوف ہے بغیر کھانا سامنے رکھے ثواب نہیں پہنچ سکتا تو میں اُس سے یہ دریافت کرنا چاہتاہوں کہ اِس کا تو مقتضاء یہ تھا کہ کُل دیگ سامنے رکھ کر اِیصالِ ثواب کیا جاتا کیونکہ ثواب تو کُل کھانے کا پہنچانا مقصود ہے اور ثواب پہنچنا اُس کے نزدیک اِس پر موقوف ہے کہ کھانا سامنے رکھ کر اِیصالِ ثواب کیا جاوے تو کُل دیگ کو سامنے رکھنا چاہیے تھا تاکہ کُل کھانے کا ثواب پہنچتا ،اِس کی کیا وجہ کہ تھوڑا سا کھانا توسامنے رکھ لیا اور باقی اُسی دیگ میں چھوڑ دیا کیونکہ اِس صورت میں تو صرف اُتنے ہی کھانے کا ثواب پہنچا جو فاتحہ دینے والے کے سامنے رکھا تھا اور باقی کھانا جو دیگ میں اَلگ رکھا ہوا ہے اُس کا ثواب کہاں پہنچا ؟ اور اگر تمہارے نزدیک دیگ کے کھانے کا ثواب بغیر سامنے رکھے پہنچ گیا تو پھر اُتنے ہی کھانے کو سامنے رکھنے کی کیا ضرورت ہوئی ،کیا حق تعالیٰ کو نمونہ دِکھلایا جاتا ہے کہ دیکھئے حضور ملاحظہ فرمالیجیے اِس قسم کا وہ ہے کھانا جس کا ہم ثواب پہنچانا چاہتے ہیں ؟ میری یہ تقریر سن کر اُن خان صاحب نے ایک قہقہہ مارا اور کہا کہ واقعی نہایت بیہودہ حرکت ہے ہم تو اَب ایسا کریں گے نہیں، میں نے کہا کہ اِس میں شک ہی کیا ہے۔'' (اِفاضات ِ یومیہ مشمولہ ملفوظات حکیم الامت ج ٩ ص ٥٣ طبع ملتان )