ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
حضرت مولانا پیر خو رشید اَحمد صاحب ہمدانی سے بیعت ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے، اِس کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں نے آپ کو خلافت دی لیکن یہ درست نہیں کہ آپ حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ ہیں، یہ بھی درست نہیں کہ آپ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب سے اِجازت حاصل ہے۔ جنوری ٢٠١٢ء روزنامہ اِسلام میں چھ اقساط میں حضرت مولانا پرایک صاحب (م۔ ن، حسن) کا مضمون شائع ہوا تھا، اُس میں یہ باتیں موجود ہیں جس سے یہ مضمون قابلِ اِعتبار نہیں رہا، وہ مضمون صرف ایک صاحب ِدیانت کو ثابت کرنے کے لیے پھیلایا گیا تھا جن کو اُن کے خلفاء میں بھی شامل کیا گیا تھا جبکہ اُن کا مسلک ِدیوبند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آپ کے خلفاء میں نامور ماہر اِقبالیات جناب اَمیر اَحمد صاحب عثمانی، حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی مدظلہم، حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین صاحب شامزئی ، مولانا اَبو عمر محمد حنفی، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم صاحب چشتی مدظلہم، حضرت مولانا مفتی لئیق اَحمد صاحب اَسعدی مدظلہ، ڈاکٹر محمد عامر صاحب آرائیں، مولانا شبیر اَحمد صاحب مدنی اور دیگر علماء شامل ہیں۔ حضرت مولانا کو حضرت شیخ الاسلام اور اُن کے خانوادے سے عقیدت و محبت تھی اِسی طرح خانوادۂ مدنی بھی اُن کااِکرام کرتا تھا، مرشدی حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی مدظلہم (صدر جمعیت علمائے ہند) چند سال قبل پاکستان تشریف لائے تو حضرت نے مجھ سے اِرشاد فرمایا کہ اِس سفر میں کراچی صرف تین شخصیتوں کہ وجہ سے آیا ہوں، ایک حضرت مولاناسیّد محمد اَصلح الحسینی، دُوسرے حضرت مولاناقاری شریف اَحمد صاحب اور تیسرے ڈاکٹر اَبو سلمان شاہ جہان پوری۔ حضرت مولانا مفتی عبدالرئوف صاحب غزنوی مدظلہم حضرت مولانا کے جنازے کے موقع پر بیان میں فرمارہے تھے کہ میں اَبھی حال ( مئی٢٠١٤ئ) میں دیوبند گیا تو سب سے پہلے حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی مدظلہم نے حضرت مولانا کی خیریت دریافت فرمائی تھی اور واپسی میں کچھ ہدایا حضرت مولانا کے لیے دیے تھے جس میں خصوصی طور سے دیوبندکا عطر بھی تھا جب وہ حضرت مولانا کو پیش کیا گیا تو حضرت نے بڑے تپاک سے اِسے قبول فرمایا، وہ عطر زندگی میں تو نہیں لگا سکے، اِس لیے