ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
اِسی طرح مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی مبلغ مولانا محمد اِسماعیل شجاع آبادی کی کوششوں سے یوسف کذاب کاکیس لاہور کی عدالت میں زیرِ سماعت آیا،عدالت نے کئی ماہ کی سماعت کے بعد اُس کی سزا کا فیصلہ سنایا تو ہمیشہ کے لیے یوسف کا فتنہ اور اُس کی طرف سے پھیلائی جانے والی فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگیا ۔ کراچی کے گوہر شاہی فرقہ کا کیس بھی عدالت میں زیرِ بحث آیا اُس کے فرقہ وارانہ نظریات عدالت کے سامنے آئے تو عدالت نے اُس کو بھی عقائد حقہ متواترہ سے اِنحراف کرکے اپنے نئے عقائد کفریہ کی بنیاد پر نیامذہب اور نیا فرقہ نکالنے پر سزاکا حکم سنایا تو گوہر شاہی فتنہ یا گوہر شاہی فرقہ دفن ہو گیا۔ کاش اگر میاں نواز شریف کے سابقہ دورِ حکومت میں بھٹو اسمبلی کی طرح نواز اسمبلی بھی تحفظ ناموس صحابہ و اہلِ بیت پاس کرکے قانون سازی کر دیتی یا کم اَزکم سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں فریقین کا مؤقف سن کر عدالت ِعالیہ کوئی مناسب فیصلہ کر دیتی، محض فرقہ واریت قرار دے کر حکومت اپنی طاقت کے زور پر ظلم ڈھانے ا ورمسئلہ دبانے کی رِیت اِختیار نہ کرتی تونہ لشکر جھنگوی بنتا ،نہ سپاہ محمدوجود میں آتا،نہ شیعہ سنی قتل و غارت ہوتی اور نہ ہی سپاہ صحابہ پر پابندی لگانی پڑتی کیونکہ سپاہ صحابہ کا اعلان تھا کہ اگر ناموسِ صحابہ و اہل بیت کو قانونی تحفظ دے دیا جائے تو ہم سپاہ صحابہ کو ختم کر دیں گے۔لہٰذا جو حکومت بھی فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ختم کرنا چاہیے تووہ اَوّلاً فرقہ واریت کی حقیقت کو سمجھے کہ فرقہ واریت ہے کیا ؟ پھر فرقہ واریت کے مرتکب اَفراد کو نئے نظریات چھوڑ کر عقائد ِمتواترہ کا پابند کیا جائے اگر وہ اُن کے پابند نہ ہوں تو بذریعہ عدالت اُن کو پابند ِسلاسل کرکے اُن کو جیل میں بند کر دیا جائے تاکہ ساتھ ہی فرقہ واریت بھی بند ہو جائے ۔ (جاری ہے)