ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
فرقہ واریت کے ختم کرنے میں مخلص ہے اُس کے لیے یہ اِقدام ناگزیر ہے اور حکومت کے لیے یہ اِصلاحی اِقدام کرنا کوئی مشکل نہیں ،اگر یہ معاملہ وزارت ِمذہبی اُمور کے اِختیار میں دے دیا جائے اور عدالتوں کو باقاعدہ مذہبی کیسوں کی سماعت و فیصلہ کا اِختیا ر دے دیا جائے اور عدالت میں جو شخص بھی کتاب سنت کی متواتر و متوارث تحقیق و تشریح سے منحرف ثابت ہو جائے وہ فرقہ واریت کا مجرم ہے اُس کو عدالت کی طرف سے قرار ِواقعی سزا مل جائے تو فرقہ واریت کے سونتے خود ہی خشک ہو جائیں گے اور فرقہ و اریت کے غلیظ گڑھے ختم ہوجائیں گے ۔ تاریخ اِسلام کے ترقی یافتہ اور روشن دور میں اِسلامی حکومتوں میں یہی دستور تھا چنانچہ اَمیرالمؤمنین خلفیة الرسول سیّد نا حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت محمدی کے مقابلہ میں اپنی جھوٹی نبوت کا دعوی کر رکھا تھا اور اپنی اچھی خاصی قوت تیار کر لی تھی، کے ساتھ جہاد کرکے سترقراء صحابہ کرام کی قیمتی جانیں قربان کرکے اِس شجر ہ خبیثہ کی جڑ کاٹ دی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اِس فتنہ کو دفن کر دیا۔ اَمیرالمؤ منین سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں خارجیوں کا فتنہ و فرقہ وجود میں آیاجنہوں نے اپنی جدید تحقیق اور جدید نظریات کی وجہ سے ایک نیا مذہب اِیجاد کیا،اُن کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں کسی کو حکم بنانا کفر ہے اور جو آدمی اِس عقیدہ سے اِتفاق نہ کرے وہ کافر ہے اُس کا خون بہا دینا مباح ہے ،یہ بھی اُن کا عقیدہ تھا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافرہے۔ یہ فرقہ بارہ ہزار کی تعداد میں تھا جب اُنہوں نے یہ مذہب اِیجاد کرکے اُس کو رواج دینا چاہا تو اَوّلاًسیّد نا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیج کر اُن کو سمجھایا اُن کے شکوک و شبہات کا اِزالہ کیا مگر جب یہ راہِ راست پر نہ آئے تو ثانیاً سیّد نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اُن پرفو ج کشی کی اور فوجی طاقت کے ذریعہ اِس فتنہ کو کچل دیا گیا۔ اِس کے بعد اِسلامی حکومتوں کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ ملکی سرحد ات کی طرح حدود اللہ یعنی حدود ِدین کی بھی حفاظت کریں اور اِسلامی حکومتوں کے دور میں جب بھی کسی نے حدودِدین کو پامال