ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
٭ ایک روز حضرت اِمام حسن رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! آج شب کو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ میں نے حق تعالیٰ کو دیکھا ہے کہ عرش کے اُوپر جلوہ فرما ہے پھر رسولِ خدا ۖ تشریف لائے اور عرش کے ایک پائے کے پاس کھڑے ہوگئے پھر اَبو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسولِ خدا ۖ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ اِس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے، اُن کے ہاتھ میں اُن کا کٹا ہوا سر تھا اور اُنہوں نے آکر کہا اے پرور دِگار ! اپنے بندوں سے پوچھ مجھے کس جرم میں قتل کیا ہے ؟ اُن کے یہ کہتے ہی دو پرنالے خون کے زمین پر بہادیے گئے۔ '' کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایسا بیان فرماتے ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا ہے سچ کہتے ہیں۔ ٭ حضرت سعد بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اے لوگو تم نے جو ظلم عثمان رضی اللہ عنہ پر کیا اگر اِس کہ وجہ سے اُحد کا پہاڑ ہٹ جاتا تو حق بجانب تھا۔ ٭ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ مصری لوگ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بغاوت کر کے آئے ہیں کیا کریں گے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا قتل کردیں گے مگر وہ جنت میں جائیں گے اور اُن کے قاتل دوزخ میں جائیں گے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ لوگ اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیں گے تو پھر اُن کا بدلہ نہ پائیں گے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کرنا ورنہ پھر تمہاری تلوار قیامت تک آپس ہی میں چلتی رہے گی، جب کوئی قوم اپنے نبی کو قتل کرتی ہے تو اُس کے بدلے ستر ہزار آدمی قتل کیے جاتے ہیں اور اگر خلیفۂ نبی کو قتل کرتی ہے تو اُس کے بدلے پینتیس ہزار آدمی قتل ہوتے ہیں اور شہادت کے بعد فرمایا لوگوں نے اپنے اُوپر فتنوں کا دروازہ کھول لیا ہے جو اَب قیامت تک بند نہ ہوگا۔ ٭ حضرت اَبوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر عثمان رضی اللہ عنہ مجھے سر کے بل چلنے