( کتاب الطلاق )
]١٨٨٥[(١)الطلاق علی ثلثة اوجہ احسن الطلاق وطلاق السنة وطلاق البدعة ]١٨٨٦[ (٢) فاحسن الطلاق ان یطلق الرجل امرأتہ تطلیقة واحدة فی طھر واحد لم یجامعھا فیہ ویترکھا حتی تنقضی عدتھا]١٨٨٧[(٣) وطلاق السنة ان تطلق المدخول
( کتاب الطلاق )
ضروری نوٹ عورت کو نکاح سے الگ کرنے کو طلاق کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت سے ہے۔الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (الف) (آیت ٢٢٩ سورة البقرة ٢) یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدة (ب) (آیت ١ سورة الطلاق ٦٥) اور حدیث میں ہے (٢) عن ابن عمر عن النبی ۖ قال ابغض الحلال الی اللہ عزوجل الطلاق (ج) (ابوداؤد شریف ، باب فی کراہیة الطلاق ص ٣٠٣ نمبر ٢١٧٨) ان آیتوں اور حدیث سے طلاق دینے کا ثبوت ہوا۔
]١٨٨٥[(١)طلاق کی تین قسمیں ہیں۔احسن طلاق، طلاق سنت اور طلاق بدعت۔
تشریح طلاق دینے کے تین طریقے ہیں ان کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
]١٨٨٦[(٢) احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ایسے طہر میں کہ جس میں اس سے وطی نہ کی ہو۔پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔
تشریح یوں تو طلاق نہیں دینی چاہئے لیکن اگر مجبوری میں دینی ہی پڑے تو اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں صحبت نہ کی ہو اس طہر میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے۔یہاں تک کہ عدت گزر کر خود بائنہ ہوجائے۔
وجہ احسن اس لئے کہا کہ عدت کے اندر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے (٢) اثر میں ہے ۔عن عبد اللہ قال من اراد الطلاق الذی ھو الطلاق فلیطلقھا تطلیقة ثم یدعھا حتی تحیض ثلاث حیض (د) (مصنف ابن ابی شیبة ٢ ما یستحب من طلاق السنة وکیف ھو ؟ ج رابع ،ص٧ ٥ ، نمبر ١٧٧٣٣ مصنف عبد الرزاق ، باب وجہ الطلاق وھو طلاق العدة والسنة ج سادس ص ٣٠١ نمبر ١٠٩٢٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔پھر عورت کو چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت گزر جائے یہ احسن طلاق ہے۔اور بعض مرتبہ اس کو طلاق سنت بھی کہتے ہیں۔
]١٨٨٧[(٣)اور طلاق سنت یہ ہے کہ طلاق دے مدخول بہا کو تین! تین طہروں میں۔
حاشیہ : (الف) طلاق دو مرتبہ ہے۔پھر اچھے انداز میں روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے (ب) اے نبی اگر بیویوں کو طلاق دو تو عدت گزارنے کے مناسب طلاق دیں اور عدت کو گنیں (ج) آپۖ نے فرمایا اللہ تعالی کو حلال میں سے مبغوض چیز طلاق ہے(د) جو مناسب طلاق دینا چاہے تو وہ ایک طلاق دیدے ۔پھر اس کو تین حیض تک چھوڑدے۔