Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

413 - 448
( کتاب السرقة وقطاع الطریق )
]٢٥٢٣[(١)اذا سرق البالغ العاقل عشرة دراھم او ما قیمتہ عشرة دراھم مضروبة 

(  کتاب السرقة وقطاع الطریق  )
ضروری نوٹ  کسی کے مال کے چوری کرنے کو سرقہ کہتے ہیںاور ڈاکہ زنی کو قطاع الطریق کہتے ہیں۔یعنی ڈاکہ زنی کی وجہ سے لوگوں کا راستہ کاٹ دینا۔چوری تین شرطوں کے ساتھ کرے تو ہاتھ کٹے گا  ۔ایک تو محفوظ جگہ سے چوری کرے،دوسری وہ چیز دس درہم  یا اس سے زیادہ کی ہو،اور تیسری یہ کہ اس چیز میں چور کا کسی قسم کا حصہ نہ ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔دلیل یہ آیت ہے۔والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم (الف) (آیت ٣٨ سورة المائدة ٥) اس آیت سے پتا چلا کہ چور یا چورن چوری کر لیں تو دونوں کے ہاتھ کاٹیںگے (٢) حدیث میں ہے ۔ عن ابن عباس قال قطع رسول اللہ ۖ ید رجل فی مجن قیمتہ دینار او عشرة درہم (ب) (ابو داؤد شریف، باب ما یقطع فیہ السارق ص ٢٥٤ نمبر ٤٣٨٧ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کم یقطع السارق ص ٢٦٧ نمبر ١٤٤٦ مسلم شریف ، باب حد السرقة ونصابھا ص ٦٣ نمبر ١٦٨٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور دس درہم کی چیز ہوتو چوری میں ہاتھ کا ٹا جائے گا۔
]٢٥٢٣[(١) اگر بالغ عاقل آدمی نے چرایا دس درہم یا ایسی چیز جس کی قیمت دس درہم ہو، سکہ دار ہو یا بے سکہ ہو ایسی محفوظ جگہ سے جس میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس پر ہاتھ کاٹنا واجب ہے غلام اور آزاد اس میں برابر ہیں۔  
تشریح  عاقل بالغ آدمی ہو اور وہ دس درہم یا دس درہم کی چیز چرالے اور کسی ایسی محفوظ جگہ سے چرائے جس کے محفوظ ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور غلام اور آزاد دونوں کے ہاتھ کاٹے جائیںگے۔ اس حد میں یہ نہیں ہے کہ آزاد کی حد پوری ہوگی اور غلام کی حد آدھی کہ مثلا ہاتھ کٹنے کے بدلے میں ان کو آدھے کوڑے لگے۔بلکہ دونوں کی حد برابر ہیں یعنی ثابت ہونے پر دونوں کے ہاتھ کٹیںگے ۔ 
وجہ  عاقل بالغ ہونے کی وجہ پہلے کئی بار گزر چکی ہے کہ بچہ اور مجنون مرفوع القلم ہیں۔ دس درہم کی دلیل او پر والی ابو داؤد شریف کی حدیث ہے۔عن ابن عباس قطع رسول ۖ ید رجل فی مجن قیمتہ دینار او عشرة دراھم (ابو داؤد شریف،نمبر ٤٣٨٧  ترمذی شریف ،نمبر ١٤٤٦)(٢) اثر میں ہے۔عن ابن عباس لایقطع السارق فی دون ثمن المجن وثمن المجن عشرة دراھم(ج)  (مصنف ابن ابی شیبة ٤ من قال لا تقطع فی اقل من عشرة دراھم ج خامس ص ٤٧٣ نمبر ٢٨٠٩٥ سنن للبیہقی ،٤٨ باب اختلاف الناقلین فی ثمن المجن وما یصح منہ ومالا یصح ج ثامن ص ٤٤٨ نمبر ١٧١٧٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ دس درہم کی چیز ہوتو ہاتھ کاٹا جائے گا (٣) ہاتھ کاٹنے میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ زیادہ مال میں عضو کٹے۔اگرچہ حدیث میں اس سے کم تین درہم اور چوتھائی دینار میں بھی ہاتھ کٹنے کا 

حاشیہ  :  (الف)چور اور چورن کا ہاتھ کاٹو یہ جو کچھ کیا اس کا بدلہ ہے اللہ کی جانب سے۔اللہ تعالی غالب ہیں حکمت والے ہیں (ب) حضورۖ نے ایک آدمی کا ہاتھ ڈھال کی وجہ سے کاٹا جس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی(ج) ابن عباس فرماتے ہیں کہ چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ڈھال کی قیمت سے کم میں اور ڈھال کی قیمت دس درہم ہے۔

Flag Counter