( کتاب الخلع )
]٢٠٠٥[(١)اذا تشاق الزوجان وخافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا بأس ان تفتدی نفسھا
( باب الخلع )
ضروری نوٹ خلع کے معنی نکالنا ہیں،زوجیت کو مال کے بدلے میں نکال دینے کو خلع کہتے ہیں۔خلع میں بیوی کی جانب سے مال ہوتا ہے اور شوہر اس کے بدلے طلاق دیتا ہے اس کو خلع کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ (الف) (آیت ٢٢٩ سورة البقرة ٢) (٢) اور اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے۔عن ابن عباس انہ قال جا ئت امرأة ثابت بن قیس الی رسول اللہ انی لا اعتب علی ثابت فی دین ولا خلق ولکنی لا اطبقہ فقال رسول اللہ فتر دین عیلہ حدیقتہ ؟ قالت نعم (ب) (بخاری شریف ، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ ص ٧٩٤ نمبر ٥٢٧٥) (ابو داؤد شریف ، باب فی الخلع ص ٣٠٩ نمبر ٢٢٢٨) اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کے درمیان اختلاف ہو جائے تو خلع کر سکتا ہے۔
]٢٠٠٥[(١)اگر میاں بیوی میں ناچاکی ہو جائے اور دونوں خوف کرے کہ اللہ کی حدود کو قائم نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت اپنی جان کے بدلے کچھ مال دے کر خلع کرے،پس جب انہوں نے یہ کر لیا تو خلع سے طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی اور عورت کو مال لازم ہوگا۔
تشریح میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے اور اس بات کا خوف ہو کہ اللہ کی حدود کو قائم نہ کر سکے تو عورت کے لئے جائز ہے کہ شوہر کو کچھ مال دے کر طلاق لے لے اور اپنی جان چھڑا لے۔خلع کرکے شوہر مال لے تو خلع کرتے ہی طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔الگ سے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ خلع جائز ہونے کی دلیل اوپر کی آیت اور حدیث ہے۔اور خلع ہی سے طلاق واقع ہو جائے گی اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن ابن عباسان النبی ۖ جعل الخلع تطلیقة بائنة (ج)(سنن للبیہقی ، باب الخلع ھل ھو فسخ او طلاق ج سابع ص ٣١٦ مصنف ابن ابی شیبة ١٠٤ ماقالوا فی الرجل اذا خلع امرأتہ کم یکون من الطلاق ؟ ج رابع ص ٨٥)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خلع خود ہی طلاق بائنہ ہے (٢) جب شوہر نے رقم لی تو اس کے بدلے عورت کی جان چھوٹنی چاہئے اور یہ اسی شکل میں ہو سکتا ہے جبکہ خلع طلاق بائنہ کے درجے میں ہو،ورنہ عورت کو رقم دینے سے فائدہ کیا ہوا ؟
فائدہ بعض ائمہ کی رائے ہے کہ خلع سے طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ مال لینے کے بعد با ضابطہ شوہر طلاق دے تب طلاق واقع ہوگی۔
وجہ ان کی دلیل اوپر کی حدیث کا یہ ٹکڑا ہے۔عن عکرمة ان اخت عبد اللہ بن ابی بھذا وقال تردین حدیقتہ ؟ قالت نعم فردتھا وامرأة یطلقھا (د) (بخاری شریف ، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ ص٧٩٤ نمبر ٥٢٧٤) اس حدیث میں ہے کہ بعد میں طلاق دے
حاشیہ : (الف) اگر تم خوف کروکہ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم نہ کر سکے تو دونوں پر کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ عورت اس کا فدیہ دے (ب) ثابت بن قیس کی بیوی حضورۖ کے پاس آکر کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں ثابت پر دین اور اخلاق کے بارے میں عیب نہیں لگاتی ،لیکن میں اس کے ساتھ رہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔حضورۖ نے پوچھا کیا اس کا باغ اس کو واپس دے سکتی ہے ؟ کہنے لگی ہاں (ج) حضورۖ نے خلع کو طلاق بائنہ قرار دیا(د) آپ نے عبد اللہ کی بہن سے فرمایا کیا تم (باقی اگلے صفحہ پر)