Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

88 - 448
لبن شاة فلا رضاع بینھما ]١٨٨١[ (٢٢) واذا تزوج الرجل صغیرة وکبیرة فارضعت الکبیرة الصغیرة حرمتا علی الزوج]١٨٨٢[(٢٣) فان کان لم یدخل بالکبیرة فلا مھر لھا وللصغیرة نصف المھر]١٨٨٣[(٢٤) ویرجع بہ الزوج علی الکبیرة ان کانت تعمدت بہ الفساد وان لم تتعمد فلا شیء علیھا]١٨٨٤[(٢٥) ولا تقبل فی الرضاع 

میں سے مرد ددھ پلائے تو رضاعت نہیں ہوگی کیونکہ وہ ماں نہیں ہے تو بکری کے دودھ سے رضاعت کیسے ثابت ہوگی۔  
اصول  یہ مسئلے اس اصول پر ہیں کہ ماں کا دودھ ہوتو رضاعت ثابت ہوگی ورنہ نہیں ۔
١٨٨١[(٢٢) اگر آدمی نے چھوٹی بچی اور بڑی عورت سے شادی کی۔پس بڑی نے چھوٹی کو دودھ پلادیا تو شوہر پر دونوں حرام ہوںگی۔  
تشریح  ایک آدمی نے دو سال کے اندر کی بچی اور بڑی عورت سے شادی کی ۔پس بڑی عورت نے چھوٹی بیوی کو دودھ پلا دیا تو دونوں شوہر پر حرام ہو جائیںگی۔  
وجہ  دودھ پلانے کی وجہ سے چھوٹی بچی بڑی بیوی کی رضاعی بیٹی بن گئی۔اس لئے یہ مرد ماں اور بیٹی کو جمع کرنے والا ہوا اس لئے دونوں حرام ہوںگی جیسے نسبی ماں اور بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے۔
]١٨٨٢[(٢٣)پس اگر بڑی سے صحبت نہ کی ہو تو اس کے لئے مہر نہیں ہے اور چھوٹی کے لئے آدھا مہر ہے ۔
 تشریح  بڑی سے صحبت نہیں کی اور تفریق واقع ہوئی تو اس کو آدھا مہر ملنا چاہئے ۔لیکن بڑی کے دودھ پلانے سے تفریق واقع ہوئی ہے اس لئے تفریق کا سبب بڑی کی جانب سے ہے۔اس لئے اس کو آدھا مہر بھی نہیں ملے گا۔اور چھوٹی کی جانب سے تفریق نہیں ہے اور صحبت سے پہلے تفریق واقع ہوئی ہے اس لئے اس کو آدھا مہر ملے گا۔
]١٨٨٣[(٢٤)اور شوہر مہر وصول کرے گا بڑی سے اگر جان کر فساد کی ہو۔اور اگر فساد کا ارادہ نہ کی ہو تو بڑی پر کچھ نہیں ہے۔  
تشریح  بڑی نے نکاح توڑنے ہی کے لئے چھوٹی کو دودھ پلایا ہو تو جو آدھا مہر شوہر نے چھوٹی کو دیا وہ بڑی سے وصول کرے گا۔  
وجہ  کیونکہ اس نے جان کر نکاح توڑوایا اور آدھا مہر دلوانے کا سبب بنی۔اور اگر بچی بھوک سے رو رہی تھی اور دودھ پلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔یا نکاح ٹوٹنے کا علم نہیں تھا تو جو آدھا مہر چھوٹی کو دیا ہے وہ بڑی سے شوہر وصول نہیں کرے گا۔
 وجہ  کیونکہ عورت نے اصلاح کی ہے فساد نہیں کی ہے۔
]١٨٨٤[(٢٥)اور نہیں قبول کی جائے گی رضاعت میں تنہا عورتوں کی گواہی بلکہ ثابت ہوگی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے۔  
وجہ  رضاعت کے ثبوت سے حرمت ثابت ہوگی اور نکاح فاسد ہوگا جو حقوق العباد ہیں۔ اور حقوق العباد کے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی درکار ہے۔ اس لئے رضاعت کے ثبوت کے لئے تنہا دو عورتوں یا چار عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہے (٢) آیت یہ ہے۔واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشھداء ان تضل 


Flag Counter