Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

54 - 448
]١٨١٠[(٨٥) واذا ضمن الولی المھر للمرأة صح ضمانہ وللمرأة الخیار فی مطالبة زوجھا او ولیھا]١٨١١[(٨٦) واذا فرق القاضی بین الزوجین فی النکاح الفاسد قبل 

]١٨١٠[(٨٥)اور ولی ضامن بن جائے مہر کا عورت کے لئے تو اس کا ضامن بننا صحیح ہے۔اور عورت کو اختیار ہے مطالبہ کرنے میں اپنے شوہر سے یا اس کے ولی سے۔  
تشریح  عورت کو نکاح کرانے کا جو ولی تھا وہی شوہر کی جانب سے عورت کو مہر ادا کرنے کا ولی بن گیا تو یہ جائز ہے۔ اور عورت کو اختیار ہے کہ شوہر سے مہر کا مطالبہ کرے۔اور یہ بھی اختیار ہے کہ اپنے ولی سے مطالبہ کرے۔کیونکہ وہ بھی ادا کرنے کا کفیل ہے۔  
وجہ  نکاح میں ولی سفیر اور معبر ہوتا ہے۔اس پر مہر لینے کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔اس لئے وہ شوہر کی جانب سے مہر ادا کرنے کا کفیل بن سکتا ہے۔ اور چونکہ شوہر اصل ذمہ دار ہے اس لئے عورت اس سے بھی مطالبہ کر سکتی ہے۔ اور ولی کفیل ہے اس لئے اس سے بھی مطالبہ کر سکتی ہے (٢) حدیث میں دونوں سے مطالبہ کرنے کا اشارہ ہے۔قال جابر توفی رجل فغسلناہ وحنطناہ وکفناہ ثم اتینا النبی ۖ فقلنا لہ تصلی علیہ فقال فخطا خطی ثم قال علیہ دین؟قال فقیل دیناران قال فانصرف قال فتحملھما ابو قتادة قال فاتیناہ قال فقال ابو قتادة الدیناران علی فقال النبیۖ حق الغریم وبری منھما المیت  قال نعم فصلی علیہ رسول اللہ ۖ قال فقال لہ بعد ذلک بیوم مافعل الدیناران قال انما مات امس قال فعاد الیہ کالغد قال قد قضیتھما فقال النبی ۖ الآن بردت علیہ جلدہ (الف) (سنن للبیہقی ، باب الضمان علی المیت ج سادس ،ص ١٢٤، نمبر١١٤٠٥) اس حدیث میں اس وقت تک میت کی چمڑی ٹھنڈی نہیں ہوئی جب تک کہ دونوں دینار ابو قتادہ نے ادا نہ کر دیئے۔جس سے معلوم ہوا کہ دو دینار کی ذمہ داری اصل میت پر بھی رہی۔اس لئے کفیل اور مکفول عنہ شوہر دونوں مہر کے ذمہ دار ہوںگے۔
]١٨١١[(٨٦) اگر قاضی نے نکاح فاسد میں بیوی شوہر کے درمیان تفریق کرائی صحبت سے پہلے تو اس کے لئے مہر نہیں ہے۔اور ایسے ہی خلوت کے بعد مہر نہیں ہے۔  
تشریح  نکاح فاسد میں قاضی نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرائی ۔پس اگر صحبت سے پہلے یا خلوت سے پہلے تفریق کرائی تو عورت کے لئے مہر نہیں ہے۔  
وجہ  نکاح فاسد مجبوری کے درجہ میں نکاح ہے۔ اس لئے با ضابطہ صحبت سے پہلے نکاح کا انعقاد نہیں ہوگا۔ اس لئے اس سے پہلے مہر بھی لازم 

حاشیہ  :  (الف) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا ۔پس ہم نے اس کو غسل دیا اور حنوط لگایا اور کفن دیا۔پھر حضورۖ کے پاس آیا اور ان سے گذارش کی کہ آپۖ اس پر جنازہ نماز پڑھیں۔پس آپۖ ایک دو قدم چلے پھر پوچھا کیا اس پر قرض ہے ؟ کہا گیا کہ دو دینار ہیں۔ پس آپۖ پیچھے ہٹ گئے ۔پس اس کی ذمہ داری ابو قتادہ نے لے لی۔ہم حضورۖ کے پاس آئے اور کہا کہ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ دو دینار کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ آپۖ نے فرمایا قرض خواہ کا حق اور میت اس سے بری ہو گیا؟ابو قتادہ نے فرمایا ہاں ! پس حضورۖ نے اس پر نماز پڑھی۔ایک دن کے بعد پوچھا گیا کہ دو دینار کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا کہ وہ تو کل ہی مرے ہیں۔ پھر کل کی طرح اگلے دن بھی پوچھا۔ میں نے کہا کہ ان کو ادا کردیا ہوں۔آپۖ نے فرمایا اب اس کی کھال ٹھنڈی ہو گئی۔

Flag Counter