Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

439 - 448
عفا الاولیاء عنھم لم یُلتفت الی عفوھم]٢٥٦٤[ (٤٢)وان قتلوا واخذوا مالا فالامام بالخیار ان شاء قطع ایدیھم وارجلھم من خلاف وقتلھم وصلبھم ان شاء قتلھم وان شاء 

سورة المائدة ٥) اس آیت سے پتا چلا کہ قتل کیا ہے تو اس کے بدلے قتل کیا جائے گا۔آیت محاربہ میں بھی او یقتلوا (آیت ٣٣، سورة المائدة ٥ ) تھا۔یعنی ڈاکہ زنوں کو قتل کردیا جائے۔اور ولی کے معاف کرنے سے بھی قصاص ساقط نہیں ہوگا کیونکہ ان کی شرارت بہت زیادہ ہے (٣) اثر میں ہے ۔ عن الزھری قال عقوبة المحارب الی السلطان لایجوز عفو ولی الدم ،ذلک الی الامام (الف) (مصنف عبد الرزاق باب المحاربة ج عاشر ص ١١١ نمبر ١٨٥٥٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اس کا معاملہ حاکم کے ذمے ہے ولی کو معاف کرنے کی  اجازت نہیں ہے۔  
لغت  یلتفت  :  توجہ دینا۔
]٢٥٦٤[(٤٢)اور اگر قتل کیا اور مال بھی لیا تو امام کو اختیار ہے چاہے تو ہاتھ اور پاؤں خلاف سے کاٹے اور ان کو قتل کرے اور سولی دے اور چاہے تو صرف قتل کرے اور چاہے تو سولی دے ۔
 تشریح  مال بھی لیا اور قتل بھی کیا ہے اس لئے دو جرم ہوئے اس لئے دونوں کی سزا دے سکتا ہے۔یعنی مال کے بدلے ہاتھ پاؤں کاٹنا اور قتل کے بدلے بعد میں قتل کرنا۔ اور مناسب سمجھے تو ہاتھ پاؤں نہ کاٹے بلکہ بڑی سزا قتل کرنا ہے وہ کرے اور چاہے تو اس سے بھی بڑی سزا سولی دے جس میں پیٹ پھاڑ کر مارنے کے علاوہ تین دن تک تختے پر لٹکانا بھی ہے۔  
وجہ  اوپر کی حدیث میں اہل عرینہ کا ہاتھ پاؤں بھی کاٹا تھا اور سلائی پھیر کر قتل کے بدلے مارا بھی تھا۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن انس ... فاتی بھم فقطع ایدیھم وارجلھم وسمل ثم لم یحسمھم حتی ماتو (ب) (بخاری شریف، باب کتاب المحاربین من اہل الکفر والردة ص ١٠٠٥ نمبر ٦٨٠٢) اس حدیث میں ہاتھ پاؤں بھی کاٹا اور سلائی پھیر کر مارا بھی۔اور امام کے لئے اختیار ہے کہ چھوٹی سزا چھوڑ کر ایک ہی مرتبہ بڑی سزا دیدے یعنی قتل کردے یا سولی دیدے۔  
وجہ  اس کی دلیل اس اثر میں ہے۔قال عطاء ای ذلک شاء الامام حکم فیھم ان شاء قتلھم او صلبھم او قطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ان شاء الامام فعل واحدة منھن وترک مابقی (ج) (مصنف عبد الرزاق باب المحاربة ج عاشر ص ١١٠ نمبر ١٨٥٤٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ الگ الگ سزا دے اور اس کا بھی اختیار ہے کہ بڑی سزا دے اور چھوٹی سزا چھوڑ دے (٢) آیت میں بھی امام کے اختیار پر سزا کو چھوڑ ا ہے اسی لئے چاروں سزاؤں کو حرف اَوْ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

حاشیہ  :  (الف)حضرت زہری نے فرمایا محارب کی سزا بادشاہ کے ذمے ہے مقتول کے ولی کو معاف کرنا جائز نہیں ہے یہ امام کے اختیار میں ہے(ب) حضرت انس فرماتے ہیں قبیلہ عکل کے لوگ لائے گئے پس ان کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ دیا اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی پھر ان کو نہیں داغا یہاں تک کہ مر گئے(ج) حضرت عطاء نے فرمایا امام جو چاہے محارب کے بارے میں فیصلہ کرے اگر چاہے تو ان کو قتل کرے یا ان کو سولی دے یا ان کے ہاتھوں اور پیروں کے خلاف کی جانب سے کاٹ دے اور چاہے تو امام ان میں سے ایک کرے اور باقی سزا چھوڑ دے۔

Flag Counter