Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

437 - 448
الطریق فاُخذوا قبل ان یاخذوا مالا ولاقتلوا نفسا حبسھم الامام حتی یُحدثوا توبة]٢٥٦٢[ (٤٠)وان اخذوا مال مسلم او ذمی والماخوذ اذا قسم علی جماعتھم 

کرلے اور حرکات و سکنات سے محسوس ہو کہ اس نے ڈاکہ زنی سے توبہ کرلی ہے۔  
وجہ  ہاتھ پاؤں تو اس لئے نہیں کاٹے گا کہ ابھی مال نہیں لیا ہے اور قتل اس لئے نہیں کیا جائے گا کہ ابھی کسی کا خون نہیں بہایا ہے۔ممکن ہے کہ اس کام سے پہلے وہ توبہ کر لیتا (٢) اس اثر میں ہے ۔ان عمر بن عبد العزیز کتب فی سارق لایقطع حتی یخرج بالمتاع من الدار لعلہ یعرض توبة قبل ان یخرج من الدار (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٥ فی السارق یوخذ قبل ان یخرج من البیت بالمتاع ج خامس ص ٤٧٤ نمبر ٢٨١١٤ مصنف عبد الرزاق ، باب السارق یوجد فی البیت ولم یخرج ج عاشر ص ١٩٦ نمبر ١٨٨٠٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مال چرا کر قبضہ کرے گا تب ہاتھ کاٹا جائے گا۔اور چونکہ اس ڈاکہ زن نے ابھی مال لوٹا نہیں ہے اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا صرف قید کیا جائے گا (٢)آیت محاربہ میں اس کا اشارہ ہے ۔انما جزء والذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف او ینفوو من الارض ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الآخرة عذاب عظیم (ب) (آیت ٣٣ سورة المائدة ٥) اس آیت میں چار قسم کی سزا بیان کی گئی ہیں کیونکہ چار قسم کی شرارتیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے آخری سزا یہ ہے کہ ینفوا من الارض شہر سے باہر کردیا جائے یعنی قید کردیا جائے۔یہ سزا اس وقت ہے جب نہ چوری کی ہو اور نہ قتل کرسکا ہو۔  
لغت  ممتنع  :  روکنے والا یعنی راستہ روک کر ڈاکہ زنی کرنے والا۔  قطع الطریق  :  راستہ کاٹنا یعنی لوگوں کو راستے میں لوٹ لینا،ڈاکہ زنی کرنا،  حبسھم  :  ان کو قید کردے۔
]٢٥٦٢[(٤٠)اگر انہوں نے مسلمان یا ذمی کا مال لوٹا اور لیا ہوا مال ان کی جماعت پر تقسیم کیا جائے تو ان میں سے ہر ایک کو دس درہم یا زیادہ پہنچے یا ایسی چیز پہنچے جس کی قیمت یہ ہو تو امام ان کے ہاتھ اور پاؤں خلاف جانب سے کاٹے۔  
تشریح  اس جماعت نے ذمی کا مال یا مسلمان کا مال لوٹا اور اتنا مال لوٹا کہ جماعت کے ہر فرد کو دس درہم یا دس درہم سے زیادہ ملے گا۔یا لوٹا ہوا مال ہر ایک آدمی کو اتنا اتنا ملے گا کہ اس کی قیمت دس درہم ہوگی تو امام ہر ایک کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹے گا۔  
وجہ  ذمی یا مسلمان کا مال لوٹنے سے اس لئے کاٹا جائے گا کہ وہ مال محفوظ ہے۔اور حربی کا مال لوٹا تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ اس کا مال محفوظ نہیں ہے۔ اور ہر ایک کو دس درہم پہنچے تب کاٹا جائے گا اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے کہ دس درہم سے کم میں نہیں کاٹا جائے گا۔ اور دایاں ہاتھ 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر بن عبد العزیز  نے چور کے بارے میں لکھا کہ ہاتھ نہ کاٹا جائے یہاں تک کہ سامان کو گھر سے نکال لے۔اس لئے کہ شاید کہ گھر سے نکالنے سے پہلے توبہ کرلے(ب) یقینا بدلہ ان لوگوں کا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ،یہ ہے کہ قتل کئے جائیں یا سولی دی جائے یا ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا زمین سے شہر بدر کردئے جائیں۔یہ ان کے لئے دنیا میں شرمندگی ہے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

Flag Counter