Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

434 - 448
باعھا منہ او نقصت قیمتھا عن النصاب لم یقطع ]٢٥٥٧[(٣٥)ومن سرق عینا فقطع فیھا وردھا ثم عاد فسرقھا وھی بحالھا لم یقطع ]٢٥٥٨[(٣٦)وان تغیرت عن حالھا مثل ان 

اور نصاب سے قیمت کم ہو جائے تو نہیں کاٹا جائے گا اس کی دلیل یہ اثر ہے۔عن ایمن قال لم تقطع الید فی زمان رسول اللہ ۖ الا فی مجن وقیمتہ یومئذ دینار (الف) (سنن للبیہقی، باب اختلاف الناقلین فی ثمن المجن ج ثامن ص ٤٤٨ نمبر ١٧١٧٤ ابو داؤد شریف، ، باب ما یقطع فیہ السارق ص ٢٥٤ نمبر ٤٣٨٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ نصاب سے قیمت کم ہو جائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ اور ایک روایت امام ابو یوسف کی بھی ہے کہ فیصلے کے بعد چور سے بیچ دے یا ہبہ کردے یاقیمت کم ہو جائے تو پھر بھی حد لگے گی ۔
 وجہ  کیونکہ قاضی کا فیصلہ ہو چکا ہے (٢) حدیث صفوان میں حضورۖ کے فیصلے کے بعد بیچنے کی خواہش ظاہر کی یا معاف کرنے کی خواہش ظاہر کی تو آپۖ نے فرمایا کہ میرے پاس آنے سے پہلے اور فیصلے سے پہلے یہ سب کرنا چاہئے تب حد ساقط ہوتی فیصلے کے بعد ساقط نہیں ہوگی۔ حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔قال فاتیتہ فقلت اتقطعہ من اجل ثلاثین درھما؟ انا ابیعہ وانسئہ ثمنھا قال فھلا کان ھذا قبل ان تاتینی بہ (ب) (ابوداؤد شریف،باب فیمن سرق من حرز ص ٢٥٥ نمبر ٤٣٩٤نسائی شریف مایکون حرزا وما لایکون ص ٦٧٣ نمبر ٤٨٨٧)اس حدیث میں ہے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں ایسا نہ کر لیا تو معاف ہوجاتا۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ فیصلہ کرنے کے بعد تو کاٹا جائے گا۔اور دوسری حدیث میں ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹا۔فقطعہ رسول اللہ ۖ (نسائی شریف نمبر ٤٨٨٢)
]٢٥٥٧[(٣٥)کسی نے کوئی چیز چرائی پس اس میں ہاتھ کاٹا گیا اور اس نے اس کو واپس کر دیا پھر دوبارہ اس کو چرا لیا اور وہ چیز پہلی حالت پر ہے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔
 تشریح  مثلا کسی نے برتن چرایا جس کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹا گیا ۔اس نے برتن مالک کو واپس دے دیا،بعد میں پھر اس برتن کو اسی چور نے چرا لیا اور برتن کے بدلے ایک مرتبہ ہاتھ کٹ چکا تو گویا کہ اس برتن میں کچھ حصہ چور کا بھی ہو گیا اور جس میں چور کا حصہ ہو اس کے چرانے میں ہاتھ نہیں کٹتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر چور کے پاس سے وہ برتن گم ہوجاتا تو اس پر برتن کا تاوان لازم نہیں ہوتا (٢) اثر میں ہے۔عن الشعبی قال لا یقطع من سرق من بیت المال لان لہ فیہ نصیبا (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل یسرق شیئا لہ فیہ نصیب ج عاشر ص ٢١٢ نمبر ١٨٨٧٢) اس اثر میں ہے کہ اگر چوری کے مال میں چور کا حصہ ہوتو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ہاتھ کٹنے کی وجہ سے برتن میں چور کا حصہ ہوگیا ہے اس لئے دوبارہ ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
]٢٥٥٨[(٣٦)اور اگر وہ چیز اپنی حالت سے بدل گئی مثلا یہ کہ سوت چرایا تھا پس اس میں ہاتھ کاٹا گیااس کو واپس کردیا پھر کپڑا بن دیا پھر اس 

حاشیہ  :  (الف)حضرت ایمن  سے منقول ہے کہ حضورۖ کے زمانے میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا مگر ڈھال میں اور اس کی قیمت اس وقت ایک دینار ہوتی تھی (ب) میں آپۖ کے پاس آیا اور کہا کیا صرف تیس درہم کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹیںگے۔میں اس کو بیچتا ہوں اور اس کی قیمت ادھار رکھتا ہوں ۔آپۖ نے فرمایا اس کو میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ کر لیا(ج) حضرت شعبی فرماتے ہیں نہیں ہاتھ کاٹا جائے گا جس نے چرایا بیت المال سے اس لئے کہ اس کا بھی اس میں حصہ ہے۔

Flag Counter