Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

425 - 448
او من امرأة سیدہ او من زوج سیدتہ او المولی من مکاتبہ ]٢٥٤١[ (١٩)وکذلک 

درمیان کا ہے۔اس لئے غلام آقا کی چرالے یا آقا غلام مکاتب کی چرالے ،بیوی شوہر کی چرالے یا شوہر بیوی کی چرالے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (٢) اثر میں ہے۔سأل ابن مسعود فقال عبدی سرق قباء عبدی قال مالک سرق بعضہ بعضا لا قطع فیہ وھو قول ابن عباس (الف) (سنن للبیہقی ،باب العبد یسرق من متاع سیدہ ج ثامن ص ٤٨٨ نمبر ١٧٣٠٢ مصنف ابن ابی شیبة ٨١ فی العبد یسرق من مولاہ ما علیہ ؟ ج خامس ص ٥١٤ نمبر ٢٨٥٥٩) (٢) اثر میں ہے۔ فقال لہ عمر ماذا سرق قال سرق مرآة لامرأتی ثمنھا ستون درہما فقال ارسلہ فلیس علیہ قطع خادکم سرق متاعکم (ب) (سنن للبیہقی ، باب العبد یسرق من مال امرأة سیدہ ج ثامن ص ٤٨٩ نمبر ١٧٣٠٣) ان آثار سے معلوم ہوا کہ غلام آقا کے مال کو چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
بیوی شوہر کے بارے میں یہ اثر ہے ۔ بلغنی عن عامر قال لیس علی زوج المرأة فی سرقة متاعھا قطع ۔اور دوسری روایت میں ہے۔وقال عبد الکریم لیس علی المرأة فی سرقة متاعہ قطع (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب من سرق مالا یقطع فیہ ج عاشر ص ٢٢١ نمبر ١٨٩٠٨) اور اسی باب کے حدیث نمبر ١٨٩٠٧ میں ذی رحم محرم کے بارے میں ہے ۔قال الثوری ویستحسن الا یقطع من سرق من ذی رحم محرم خالہ او عمہ او ذات محرم (د)(مصنف عبد الرزاق ج عاشر نمبر ١٨٩٠٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کا یا شوہر بیوی کا مال چرائے یا ذی رحم محرم آدمی چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
مکاتب کا مال آقا کا مال ہے اس لئے آقا مکاتب کا مال چرائے تو نہیں کاٹا جائے گا۔  
وجہ  ان سارے مسئلوں کے لئے اوپر کی حدیث ابن ماجہ شریف دلیل ہے۔عن ابن عباس ان عبدا من رقیق الخمس سرق من الخمس فرفع ذلک الی النبی ۖ فلم یقطعہ وقال مال اللہ عز وجل سرق بعضہ بعضا (ہ) (ابن ماجہ شریف ،باب العبد یسرق ص ٢٧٢ نمبر ٢٥٩٠) اس حدیث کے آخر میں ہے بعض بعض کا چرایا اس لئے نہیں کاٹا جائے گا (٢) یہ اثر بھی ہے۔عن الثوری  قال ان سرق المکاتب من سیدہ شیئا لم یقطع وان سرق السید من المکاتب شیئا لم یقطع (و) ( مصنف عبد الرزاق ، باب الخیانة ج عاشر ص ٢١١ نمبر ١٨٨٧٠) 
]٢٥٤١[(١٩)ایسے ہی مال غنیمت میں چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔   
 
حاشیہ  :  (الف) حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے پوچھا میرے غلام نے میرے دوسرے غلام کی قباء چرا لی۔فرمایا تمہارا ہی مال ہے بعض نے بعض کا چرایا۔اس لئے اس پر ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔اور یہی قول حضرت عبد اللہ ابن عباس کا ہے(ب) حضرت عمر نے پوچھا کیا چرایا؟ کہا میری بیوی کا آئینہ چرایا جس کی قیمت ساٹھ درہم تھی۔فرمایا اس کو چھوڑ دو اس پر ہاتھ کاٹنا نہیں ہے اس لئے کہ تمہارے خام نے تمہاراسامان چرایا ہے (ج)حضرت عامر سے منقول ہے کہ عورت کے شوہر پر عورت کا سامان چرانے میں کاٹنا نہیں ہے،دوسری روایت میں ہے۔حضرت عبد الکریم نے فرمایا عورت پر شوہر کے سامنے چرانے میں ہاتھ کاٹنا نہیں ہے(د) حضرت ثوری نے اچھا سمجھا کہ نہ کاٹے جس نے چرایا ذی رحم محرم کے مال سے مثلا ماموںیا چچا یا ذی رحم محرم (ہ) حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ خمس کے غلام نے خمس سے مال چرایا۔پس یہ معاملہ حضورۖ کے پاس لے گئے تو ہاتھ نہیں کاٹا اور فرمایا اللہ کا مال ہے بعض نے بعض کو چرایا(و) حضرت ثوری نے فرمایا اگر مکاتب نے آقا کی کوئی چیز چرالی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔اور اگر آقا نے مکاتب کی کوئی چیز چرالی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

Flag Counter