Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

424 - 448
بیت المال ولا من مال للسارق فیہ شرکة ]٢٥٤٠[(١٨)ومن سرق من ابویہ او ولدہ او ذی رحم محرم منہ لم یقطع وکذلک اذا سرق احد الزوجین من الآخر او العبد من سیدہ 

میں کچھ نہ کچھ چور کا بھی حصہ ہے اس لئے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اسی طرح شرکت کے مال میں چور کا حصہ ہے اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (٢) حدیث میں ہے۔ عن ابن عباس ان عبدا من رقیق الخمس سرق من الخمس فرفع ذلک الی النبی ۖ فلم یقطعہ ،وقال مال اللہ عز وجل سرق بعضہ بعضا (الف) (ابن ماجہ شریف، باب العبد یسرق ص ٣٧٢ نمبر ٩٠ ٢٥) اس حدیث میں ہے کہ اس کا حصہ تھا اس لئے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا (٢) عن علی انہ کان یقول لیس علی من سرق من بیت المال قطع (ب) (سنن للبیہقی ، باب من سرق من بیت المال شیئا ج ثامن ص ٤٨٩ نمبر ١٧٣٠٤ مصنف ابن ابی شیبة ٨٠ فی الرجل یسرق من بیت المال ما علیہ؟ ج خامس ص ٥١٣ نمبر ٢٨٥٥٤(٣) اثر میں یہ بھی ہے۔عن القاسم ان رجلا سرق من بیت المال فکتب فیہ سعد الی عمر فکتب عمر الی سعد لیس علیہ قطع لہ فیہ نصیب (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٠ فی الرجل یسرق من بیت المال ماعلیہ؟ ج خامس ص ٥١٣ نمبر ٢٨٥٥٤ مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل یسرق شیئا لہ فیہ نصیب ج عاشر ص ٢١٢ نمبر ١٨٨٧٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کسی کی شرکت ہو تو اس کے چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
]٢٥٤٠[(١٨)کسی نے چرائی اپنے والدین کی کوئی چیز ،یا اپنے بیٹے کی یا ذی رحم محرم کی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ایسے ہی اگر چرائی بیوی شوہر میں سے ایک نے دوسرے کی ،یا غلام نے آقا کی یا آقا کی بیوی کی یا سیدہ کے شوہر کی یا آقا اپنے مکاتب کی چیز۔  
تشریح  کسی نے ماں باپ کی چیز دس درہم سے اوپر کی چرا لی یا ماں باپ نے بیٹے کی چیز چرا لی یا اپنے ذی رحم محرم کی چیز چرالی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ یا بیوی نے شوہر کی چیز چرالی یا شوہر نے بیوی کی چیز چرالی یا غلام نے آقا کی چیز چرا لی یا آقا کی بیوی کی چیز چرا لی تب بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔یا غلام نے اپنے سیدہ جو عورت تھی اس کی چیز چرائی یا سیدہ کے شوہر کی چیز چرائی یا آقا نے اپنے مکاتب کی چیز چرالی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔  
وجہ  یہ مسئلے دو اصولوں پر متفرع ہیں۔ ایک تویہ کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب رہتے ہیں کہ اس کے لئے اس کا گھر محفوظ نہیں رہا ،مثلا باپ کے لئے بیٹے کا اور بیٹے کے لئے باپ کا گھر محفوظ اور حرز نہیں ہے۔اسی پر باقی مسئلے قیاس کرلیں۔ اور چوری کہتے ہیں مقام محفوظ سے چپکے سے اٹھانا۔اس لئے چوری نہیں پائی گئی اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اور دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک کا دوسرے کے مال میں کچھ نہ کچھ حصہ سمجھا جاتا ہے۔مثلا بیٹا سمجھتا ہے کہ باپ کے مال میں میرا حصہ ہے اور باپ بھی سمجھتا ہے کہ بیٹے کا مال میرے لئے مباح ہے۔اور اوپر اثر اور حدیث گزری کہ مال میں کچھ نہ کچھ حصہ ہوتو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔یہی حال غلام اور آقا کے درمیان کا ہے۔اور یہی حال بیوی اور شوہر کے 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خمس کے غلام نے خمس کا مال چرایا ۔پس اس کو حضورۖ  کے پاس لے گئے تو اُ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔اور فرمایا اللہ کا مال ہے بعض نے بعض کو چرایا(ب) حضرت علی فرمایا کرتے تھے جس نے بیت المال سے چرایا اس پر ہاتھ کاٹنا نہیں ہے (ج) حضرت قاسم سے منقول ہے کہ ایک آدمی نے بیت المال سے چرایا تو حضرت سعد نیحضرت عمر کو لکھا تو حضرت عمر نیحضرت سعد کو لکھا کہ اس پر ہاتھ کاٹنا نہیں ہے کیونکہ اس میں چور کا حصہ ہے۔

Flag Counter