Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

426 - 448
یحفظہ وجب علیہ القطع]٢٥٤٤[ (٢٢)ولا قطع علی من سرق من حمام او من بیت اُذِن للناس فی دخولہ ]٢٥٤٥[(٢٣)ومن سرق من المسجد متاعا وصاحبہ عندہ قطع۔ 

]٢٥٤٤[(٢٢)نہیں کاٹنا ہے اس پر جس نے چرایا غسل خانے سے یا ایسے گھر سے جس میں لوگوں کے لئے داخل ہونے کی اجازت ہو۔  
تشریح  پچھلے زمانے میں غسل کرنے کے لئے حمام بناتے تھے جس میں ہر آدمی داخل ہو سکتا تھا اس لئے وہ مقام محفوظ نہیں رہا۔اسی طرح ہر وہ مقام جس میں ہر آدمی کو داخل ہونے کی اذن عام ہو جیسے مسجد،سرائے خانہ وہ مقامات حرز نہیں ہیں تو ان مقامات سے چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔  
وجہ  اثر میں ہے ۔عن ابی الدرداء قال لیس علی سارق الحمام قطع(الف)(سنن للبیہقی ، باب القطع فی کل مالہ ثمن اذا سرق من حرز وبلغت قیمتہ ربع دینار ج ثامن ص ٤٥٨ نمبر ١٧٢٠٦ مصنف عبد الرزاق ، باب سارق الحمام ومالا یقطع فیہ ج عاشر ص ٢٢٢ نمبر ١٨٩١٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حمام یعنی غسلخانہ سے چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اور اسی پر قیاس کیا جائے گا کہ ان تمام مقامات کا جس میں ہر آدمی کو جانے کی اجازت ہو۔ان سے چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔کیونکہ حمام میں ہر آدمی کو جانے کی اجازت ہے اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا گیا (٢) ابو داؤد شریف کی حدیث میں گزرا۔ومن سرق منہ شیئا بعد ان یوؤیہ الجرین فبلغ ثمن المجن فعیلہ القطع ومن سرق دون ذلک فعلیہ غرامة مثلیہ والعقوبة (ب) (ابو داؤد شریف ، باب ما قطع فیہ ص ٢٥٤ نمبر ٤٣٩٠ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محفوظ مقام پر نہ پہنچا ہوتو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بلکہ دو گنا تاوان لازم ہوگا۔
]٢٥٤٥[(٢٣)کسی نے مسجد سے سامان چرایا اور اس کا مالک اس کے پاس تھا تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔  
وجہ  مسجد میں عام لوگ جا سکتے ہیں اس لئے کوئی سامان مسجد میں ہو اور اس کا محافظ وہاں نہ ہو اور چرالے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔لیکن چیز کا مالک حفاظت کر رہاہو پھر بھی چرا لیا تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔  
وجہ  ابھی اوپر حضرت صفوان کی حدیث گزری کہ وہ مسجد حرام میں سوئے ہوئے تھی اور سر کے نیچے چادر تھی اور کسی نے چرا لی تو مالک کی حفاظت کی وجہ سے چور کا ہاتھ کاٹا گیا۔عن صفوان بن امیة قال کنت نائما فی المسجد علی خمیصة لی ثمن ثلاثین درہما فجاء رجل فاختلسھا منی فاخذ الرجل فاتی بہ النبی ۖ فامر بہ لیقطع (ج) (ابو داؤد شریف ، باب فیمن سرق من حرز ص ٢٥٥ نمبر ٤٣٩٤ نسائی شریف ما یکون حرز او مالا یکون  ص ٦٧٣ نمبر ٤٨٨٥) اس حدیث میں مسجد میں حضرت صفوان کے سر کے نیچے چادر تھی جس کی وجہ سے وہ خود محافظ تھے اس لئے محافظ کی وجہ سے ہاتھ کاٹا گیا مسجد کی وجہ سے نہیں۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابو درداء سے منقول ہے کہ فرمایا غسل خانے کے چور کا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے(ب) کسی نے کوئی چیز چرائی کھلیان پر آنے کے بعد اور ڈھال کی قیمت تک پہنچ گئی تو اس پر کاٹنا ہے۔ اور جس نے چرایا اس کے علاوہ سے تو اس پر دوگنا تاوان ہے اور سزا ہے(ج) حضرت صفوان فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں اپنی چادر پر سویا ہوا تھا جس کی قیمت تیس درہم تھی۔پس ایک آدمی آیا اور اس کو مجھ سے اچک لیا۔پس آدمی پکڑا گیا اور حضورۖ کے پاس لایا گیا تو حکم دیا ہاتھ کاٹنے کا۔

Flag Counter