Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

423 - 448
]٢٥٣٨[ (١٦)ولا نباش ولا منتھب ولا مختلس]٢٥٣٩[ (١٧)ولا یُقطع السارق من 

]٢٥٣٨[(١٦)اور نہ کفن چور پر ہاتھ کاٹنا ہے نہ لٹیرے پر، نہ اچکے پر۔  
تشریح  جو آدمی کفن چراتا ہو یا جو لوٹ کر سب کے سامنے سے لے جاتا ہو یا چکمہ سے مال لے لیتا ہو ان کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیںگے۔  وجہ  کفن چرانے والا مقام محفوظ سے نہیں چراتا کیونکہ قبرستان مقام محفوظ نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ مردہ پر کفن ڈال دینے کے بعد وہ معمولی اور گھٹیا قسم کی چیز سمجھی جاتی ہے۔اس لئے کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اثر میں ہے۔عن الزھری قال اخذ نباش فی زمان معاویة کان مروان علی المدینة فسأل من بحضرتہ من اصحاب رسول اللہ بالمدینة والفقہاء فلم یجدوا احدا قطعہ قال فاجمع رأیھم علی ان یضربہ ویطاف بہ (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٩ ماجاء فی النباش یوخذ ماحدہ؟ ج خامس ،ص ٥١٨ نمبر ٢٨٦٠٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
فائدہ  امام شافعی اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔  
وجہ  عن الشعبی قال النباش سارق،دوسری روایت میں ہے۔قال یقطع فی امواتنا کما یقطع فی احیائنا (ب) سنن للبیہقی ، باب النباش یقطع اذا اخرج الکفن من جمیع القبر ج ثامن ص ٤٦٨ نمبر ١٧٢٤١١٧٢٣٩مصنف ابن ابی شیبة ٨٩ ماجاء فی النباش یوخذ ماحدہ؟ ج خامس ص ٥١٨ نمبر ٢٨٦٠٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
اور لٹیرے اور اچکے کے بارے میں حدیث گزر چکی ہے۔عن جابر عن النبی ۖ قال لیس علی خائن ولا منتھب ولا مختلس قطع (ج) (ترمذی شریف، باب ماجاء فی الخائن والمختلس والمنتھب ص ٢٦٨ نمبر ١٤٤٨ ابو داؤد شریف، نمبر ٤٣٩١  ٤٣٩٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی دھللے کے ساتھ لوٹ کر لے جاتا ہو یا چکما دے کر اچک لے جاتا ہو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (٢) دھللے کے ساتھ لوٹ کر لے جانے میں چپکے سے لے جانا جو چوری کا معنی ہے نہیں پایا گیا۔اسی طرح سامنے چکما دے کر لے گیا تو چپکے سے لے جانا نہیں پایا گیا اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
]٢٥٣٩[(١٧)بیت المال سے چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور نہ اس مال میں جس میں چور کی شرکت ہو۔  
تشریح  کوئی آدمی بیت المال سے چوری کرے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔یا چور کا بھی مال تھا اور دوسرے کا بھی مال ساتھ میں تھا اس میں سے چور نے چوری کرلی تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔  
وجہ  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ کسی مال میں چور کا کچھ بھی حصہ ہوتو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اور مومن ہونے کی حیثیت سے بیت المال کے مال 

حاشیہ  :  (الف) حضرت معاویہ کے زمانے میں کفن چور پکڑا گیا،اور مروان مدینہ پر حاکم تھا تو مدینے میں اصحاب رسول اللہ جو حاضر تھے ان کو پوچھا تو کسی نے مشورہ نہیں دیا اس کے کاٹنے کا،فرمایا سب کی رائے ہوئی کہ اس کو مارے اور شہر میں گھمائے(ب) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ کفن چور چور کے درجے میں ہے،دوسری روایت میں ہے مردوں کے کپڑے چرانے میں بھی ایسے کاٹا جائے گا جیسے زندوں کے کپڑے چرانے میں (ج) آپۖ سے منقول ہے خیانت کرنے والے پر کاٹنا نہیں ہے نہ لوٹنے والے پر اور نہ اچکنے والے پر کاٹنا ہے۔

Flag Counter