Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

419 - 448
]٢٥٢٩[(٧)ولا فی سرقة المصحف وان کان علیہ حلیة ]٢٥٣٠[(٨)ولا فی الصلیب 

ہوتا ہے اور کھیل کود کے لئے بھی ہوتا ہے اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے بجانے کی چیز چرانے پر بھی ہاتھ نہیں کٹے گا۔  
لغت  المطربة  :  خوشی میں لانے والی چیز،یہاں مراد ہے نشہ میں لانے والی چیز،  الطنبور  :  ستار، مراد ہے باجے کی چیز۔
]٢٥٢٩[(٧)اور نہ قرآن کریم کے چرانے میں اگرچہ اس پر سونے کا کام ہوا ہو۔  
وجہ  کوئی آدمی کسی کا قرآن پڑھنا چاہے تو عموما اس کی اجازت ہوتی ہے اور پڑھنے دینے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے گویا کہ اس میں ہبہ کا شائبہ ہے۔اور چوری کی چیز ہبہ کردے تو ہاتھ نہیں کاٹاجاتا ہے۔اس لئے قرآن کریم کے چرانے میں ہاتھ نہیں کٹے گا۔ اور اگر سونے کا نقش و نگار ہو اور اس کی قیمت دس درہم سے زیادہ ہو تب بھی نہیں کٹے گا۔کیونکہ وہ قرآن کریم کے تابع ہے۔  
وجہ  اس حدیث میں ہے کہ اگر چیز چور کو ہبہ کردے تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔عن صفوان بن امیة قال کنت نائما فی المسجد علی خمیصة لی ثمن ثلاثین درھما فجاء رجل فاختلسھا منی فاخذ الرجل فاتی بہ النبی ۖ فامر بہ لیقطع قال فاتیتہ فقلت اتقطعہ من اجل ثلاثین درہما؟ انا ابیعہ وانسئہ ثمنھا قالۖ فھلا کان ھذا قبل ان تأتینی بہ (الف) (ابو داؤد شریف، باب فیمن سرق من حرز ،ص ٢٥٥ ،نمبر٤٣٩٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چور کو ہبہ کردے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اور چونکہ قرآن کریم میں ہبہ کا معنی پایا جاتا ہے اس لئے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ قرآن مال متقوم ہے اس لئے اس کے چرانے میں ہاتھ کاٹاجائے گا ۔اور ایک روایت یہ ہے کہ اس پر سونے کا نقش و نگار دس درہم کا ہوتو کاٹا جائے گا کیونکہ وہ مال متقوم ہے۔
]٢٥٣٠[(٨)اور نہیں کاٹا جائے گا سونے اور چاندی کی صلیب میں اور نہ شطرنج اور نہ نرد میں۔  
وجہ  صلیب نصاری کے پوجنے کے لئے ہے جو ناجائز ہے اور غیر متقوم ہے۔اور شطرنج اور نرد کھیل کود کی چیز ہے جو نفیس نہیں بلکہ حقیر ہے۔اس لئے ان کے چرانے میں بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (٢) اس کی حرمت کی دلیل آیت میں ہے۔ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (ب) (آیت ٦ سورۂ لقمان ٣١) اس آیت میں کھیل کود کی چیزوں کی برائی بیان کی ہے۔ اور نرد شیر کے بارے میں یہ حدیث گزر چکی ہے۔عن سلیمان بن بریدة عن ابیہ ان النبی ۖ قال من لعب بالنرد شیر فکأنما صبغ یدہ فی لحم خنزیر ودمہ (ج) (مسلم شریف ، باب تحریم اللعب بالنرد شیر ص ٢٤٠ نمبر

حاشیہ  :  (الف) حضرت صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں چادر پر سویا ہوا تھا جو تیس درہم کی تھی۔ایک آدمی آیا اور اس کو مجھ سے اچک لیا۔ پس آدمی پکڑا گیا اور حضورۖ کے پاس لایا گیا ۔پس اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔حضرت صفوان فرماتے ہیں کہ میں حضورۖ کے پاس آیا اور کہا کہ آپۖ صرف تیس درہم کی وجہ سے ہاتھ کاٹیںگے؟ میں نے اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت اسی کے حوالے کردی۔آپۖ نے فرمایا میرے پاس اس کو لانے سے پہلے ایسا کیوں نہ کر لیا؟ یعنی میرے پاس لانے سے پہلے معاف کرتے تو حد نہ لگتی(ب) لوگوں میں سے وہ ہیں جو لہو کی بات خریدتے ہیں تاکہ لاعلمی میں اللہ کے راستے سے گمراہ کیا جائے اور اس کو کھیل کود کی چیز بنائی جائے،ان کے لئے ذلت آمیز عذاب ہے(ج) آپۖ نے فرمایا کوئی نرد شیر سے کھیلے تو گویا کہ اپنے ہاتھ کو سور کے گوشت اور خون میں رنگ رہا ہے۔

Flag Counter