Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

344 - 448
ومن ارشھا]٢٣٨٨[(٥٢) وان باعہ او اعتقہ بعد العلم بالجنایة وجب علیہ الارش ]٢٣٨٩[ (٥٣)واذا جنی المدبر او ام الولد جنایة ضمن المولی الاقل من قیمتہ ومن ارشھا]٢٣٩٠[ (٥٤)فان جنی جنایة اخری وقد دفع المولی قیمتہ الی الولی الاول 

]٢٣٨٨[(٥٢)اور اگر غلام کو بیچایا آزاد کیا جنایت جاننے کے بعد تو اس پر پوری ارش واجب ہوگی۔  
وجہ  آقا یہ جانتا تھا کہ غلام نے جنایت کی ہے پھر بھی غلام کو بیچ دیا یا آزاد کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آقا پوری دیت دینے پر راضی ہے تب ہی تو جان کر آزاد کیا۔اور جس کی جنایت کی ہے اس کو نقصان دیا۔اس لئے آقا کو پوری دیت دینی ہوگی چاہے غلام کی قیمت سے زیادہ ہو(٢)اوپر اثر میں تھا ۔سمعت سفیان یقول ان کان مولاہ اعتقہ وقد علم بالجنابة فھو ضامن الجنایة (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٦٥ العبد یجنی الجنایة فیعتقہ مولاہ ج خامس، ص ٣٨٥، نمبر ٢٧١٨٣) اس اثر میں ہے کہ آقا جنایت کو جانتا تھا پھر بھی آزاد کیا تو پوری جنایت کا ضامن ہوگا۔
]٢٣٨٩[(٥٣)مدبر اور ام ولد نے جنایت کی تو آقا ضامن ہوگا اس کی قیمت اور ارش میں سے کم کا۔  
تشریح  مثلا مدبر اور ام ولد کی قیمت آٹھ سو درہم ہے اور اس نے چھ سو کی جنایت کی تو چھ سو کا ضامن ہوگا۔  
وجہ  آقا نے جنایت سے پہلے ہی اس کو ام ولد یا مدبر بنایا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پوری دیت اپنے اوپر لینا چاہتا ہے۔البتہ مدبر یا ام ولد بنانے کی وجہ سے جنایت والے کے حوالے نہیں کر سکتے۔کیونکہ ان میں آزادگی کا شائبہ آچکا ہے۔لیکن چونکہ آقا نے مدبر یا ام ولد بنا کر جنایت والے کے حوالے کرنے سے روکا ہے اس لئے اس پر جنایت اور قیمت میں سے جو کم ہو وہ لازم ہوگی۔  
وجہ  حدثنی بشیر المکتب ان امرأة دبرت جاریة لھا فجنت جنایة فقضی عمر بن عبد العزیز بجنایتھا علی مولاتھا فی قیمة الجاریة۔دوسری روایت میں ہے۔سمعت سفیان یقول جنایة المدبر علی مولاہ یضمن قیمتہ (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٦ جنایة المدبر علی من تکون؟ ج خامس، ص ٣٩٦، نمبر ٢٧٣٢٥٢٧٣١٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ قیمت بھر مدبر اور ام ولد کی جنایت کا ذمہ دار آقا ہے۔اس سے زیادہ کا نہیں۔
]٢٣٩٠[(٥٤)پس اگر دوسری مرتبہ جنایت کی اور آقا اس کی قیمت پہلے ولی کو دے چکا ہے قضاء قاضی سے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے۔اور دوسری جنایت کا ولی پیچھے لگے پہلی جنایت کے ولی کے اور جو کچھ لیا ہے اس میں شریک ہو جائے۔  
تشریح  یہ مسئلہ اس قاعدے پر ہے کہ آقا نے قاضی کے فیصلے سے ایک مرتبہ مدبر یا ام ولد کی قیمت کے برابر جنایت والے کو دے دیا تو اب اس 

حاشیہ  :  (الف) حضرت سفیان فرمایا کرتے تھے اگر آقا نے غلام کو آزاد کیا اور وہ غلام کی جنایت کو جانتا تھا تو وہ جنایت کا ضامن ہوگا(ب) بشیر المکتب فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے باندی کو مدبرہ کیا ۔پس اس نے جنایت کی تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کی جنایت کا تاوان سیدہ پر لازم کیا باندی کی قیمت کے اندر اندر۔میں نے حضرت سفیان کوفرماتے ہوئے سنا کہ مدبر کی جنایت کا تاوان اس کے آقا پر ہوگا غلام کی قیمت کے اندر اندر۔

Flag Counter