Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

336 - 448
ید رجل خطأً ثم قتلہ خطأً قبل البرء فعلیہ الدیة وسقط ارش الید]٢٣٧١[(٣٥) وکل عمد سقط فیہ القصاص بشبھة فالدیة فی مال القاتل وکل ارش وجب بالصلح والاقرار فھو فی مال القاتل ]٢٣٧٢[ (٣٦)واذا قتل الاب ابنہ عمدا فالدیة فی مالہ فی ثلث 

ہے۔اس لئے ضربیں لگانا یا کاٹنا اور جان سے مارنا ایک ہی ہو گئے۔اس لئے دونوں تداخل ہو جائیںگے اور جان کی دیت ہی ہاتھ کے تاوان کو گھیر لے گی اس لئے الگ سے ہاتھ کا تاوان لازم نہیں ہوگا۔
اگر ہاتھ اچھا ہو چکا ہوتا پھر قتل خطا کرتا تو ہاتھ کا تاوان الگ لازم ہوتا اور جان کی دیت الگ لازم ہوتی۔کیونکہ اچھا ہونے سے ہاتھ کاٹنا الگ ہو گیا اور جان کا مارنا الگ ہو گیا۔یا ایک مثلا عمد ہوتا اور قتل خطا کے طور پر ہوتا تب بھی دونوں الگ الگ ہوتے اور دونوں کی دیت الگ الگ لازم ہوتی۔کیونکہ خطا اور عمد ایک نہیں ہے۔  
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ دو جرم ایک ہو سکتے ہوں تو ایک کر دیںگے اور نہیں ہو سکتے ہوں تو دونوں الگ الگ رہیںگے اور دونوں کی دیت الگ الگ لازم ہوگی۔
]٢٣٧١[(٣٥)ہر قتل عمد جس میں قصاص ساقط ہو جائے شبہ کی وجہ سے تو دیت قاتل کے مال میں ہوگی۔اور ہر وہ ارش جو صلح اور اقرار کی وجہ سے واجب ہو تو وہ بھی قاتل کے مال میں ہوگی۔  
تشریح  قاتل نے قتل عمد کیا جس کی وجہ سے اس پر قصاص تھا لیکن کسی شبہ کی وجہ سے قصاص ساقط ہو گیا یا قاتل نے دیت پر صلح کر لی تو یہ دیت عاقلہ اور خاندان پر لازم نہیں ہوگی بلکہ خود قاتل کے مال میں واجب ہوگی۔عاقلہ پر وہ دیت لازم ہوتی ہے جو قتل خطا،شبہ خطا یا قتل شبہ عمد کی وجہ سے واجب ہو۔اسی طرح کسی مال پر قاتل نے صلح کر لی تو وہ مال عاقلہ پر لازم نہیں ہوگا۔بلکہ خود قاتل پر لازم ہوگا ۔ یا قاتل نے کسی مال کا اقرار کیا تو یہ مال بھی عاقلہ پر نہیں بلکہ قاتل پر لازم ہوگا۔  
وجہ  اثر میں ہے۔ عن عمر قال العمد والعبد والصلح والاعتراف لا یعقل العاقلة (الف) (سنن للبیہقی ، باب من قال لا تحمل العاقلة عمدا ولا عبدا ولا صلحا ولا اعترافا ج ثامن، ص١٨١،نمبر ١٦٣٥٩ مصنف ابن ابی شیبة ١٠٤ العمد والصلح والاعتراف ج خامس، ص٢٠٥ نمبر ٢٧٤٢٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ آدمی قتل عمد کرے یا مال پر صلح کرلے یا اعتراف کرلے تو وہ مال عاقلہ پر لازم نہیں ہوگا (٢) قتل خطا میں اس لئے عاقلہ پر لازم ہے کہ انہوں نے قاتل کو روکا نہیں۔اور عامدمیں تو قاتل نے جان بوجھ کر کیا اس میں خاندان کیا کرے گا۔اسی طرح خود اقرار کیا یا صلح کی تو قاتل نے اپنی جانب سے حرکت کی اس کا ذمہ دار خاندان کو کیوں قرار دیں۔
]٢٣٧٢[(٣٦)اگر باپ نے اپنے بیٹے کو جان کر قتل کر دیا تو دیت اس کے مال میں ہوگی تین سالوں میں۔  
تشریح  باپ نے اپنے بیٹے کو جان کر قتل کیا تو اس پر قصاص تھا جس کی بنا پر باپ خود قتل کیا جاتا۔لیکن حدیث میں ہے کہ بیٹے کی بنا پر باپ قتل 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر نے فرمایا قتل عمد اور غلام کا قتل اور صلح کی دیت اور اقرار کی دیت خاندان والے ادا نہیں کریںگے۔

Flag Counter