Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

303 - 448
الا بالسیف]٢٣١١[ (١٨)واذا قتل المکاتب عمدا ولیس لہ وارث الا المولی فلہ القصاص ان لم یترک وفائً]٢٣١٢[ (١٩)وان ترک وفائً ووارثہ غیر المولی فلا 

سے کچل کر قصاص لیا۔عن انس ان یھودیا قتل جاریة علی اوضاح لھا فقتلھا بحجر فجییٔ بھا الی النبی ۖ وبھا رمق فقال اقتلک؟فاشارت برأسھا ان لا! ثم قال فی الثانیة فاشارت برأسھا ان لا! ثم سألتھا الثالثة فاشارت برأسھا ای نعم! فقتلہ النبی ۖ بحجرین (الف) (بخاری شریف،باب من اقاد بالحجر ص ١٠١٦ نمبر ٦٨٧٩) (٢) آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ویسا ہی کرے جیسا قاتل نے کیا ہو۔آیت میں ہے۔وان واقبتم فعاقبوا بمثل عوقبتم بہ (ب) (آیت ١٢٦ سورة النحل ١٦) اس آیت سے پتا چلا کہ جیسا کیا ہے اسی کے مطابق سزا دی جائے۔  
لغت  یستوفی  :  وصول کرنا۔
]٢٣١١[(١٨) اگر مکاتب جان کر قتل کیا گیا اور اس کے لئے کوئی وارث نہ ہو آقا کے علاوہ تو آقا کے لئے قصاص لینے کا حق ہے اگر نہ چھوڑے مکاتب مال۔  
تشریح  مکاتب کو کسی نے جان بوجھ کر قتل کردیا اور آقا کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو اور مکاتب کے پاس اتنا مال بھی نہیں تھا کہ پورا مال کتابت ادا کرسکے اور آزاد ہو کر مر سکے ایسی صورت میں آقا کو قصاص لینے کا حق ہے ۔
 وجہ  جب مال کتابت ادا کرنے کا مال نہیں چھوڑا تو یہ طے ہے کہ وہ آقا کا غلام ہوکر مرا۔اور آقا کے علاوہ کوئی وارث بھی نہیں ہے اس لئے صرف آقا کو قصاص لینے کا حق ہوگا۔اور چونکہ ایک ہی راستہ طے ہے اس لئے قصاص لینے میں شبہ بھی واقع نہیں ہوا اس لئے قصاص لیا جائے گا۔
]٢٣١٢[(١٩)اور اگر مال کتابت ادا کرنے کے لئے مال چھوڑا اور اس کے وارث آقا کے علاوہ ہے تو ان کے لئے قصاص کا حق نہیں ہے اگرچہ وہ آقا کے ساتھ مل کر مطالبہ کریں۔  
تشریح  مکاتب کو کسی نے جان بوجھ کر قتل کیا۔اور مکاتب کی حالت یہ تھی کہ مال کتابت ادا کرنے کے لئے پورا مال چھوڑا تھا۔اور آقا کے علاوہ دوسرے لوگ ان کے ورثہ موجود تھے اس صورت میں نہ آقا قصاص لے سکے گا اور نہ ورثہ قصاص لے سکیں گے۔بلکہ قصاص ساقط ہوکر دیت لازم ہوگی۔  
وجہ  مکاتب چونکہ مال کتابت چھوڑ کر مر رہاہے اور دوسرے لوگ وارث ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک قسم کا آزاد ہو کر مرا ہے۔اور اس وقت آقا قصاص لینے کا حقدار ہے کیونکہ مال کتابت ادا نہیں کیا ہے۔اس لئے شبہ ہو گیا کہ قصاص کون وصول کرے آقا یا وارث۔اور شبہ سے قصاص 

حاشیہ  :  (الف) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور کے لئے قتل کیا۔پس اس کو پتھر سے قتل کیا تھا۔تو حضورکے پاس لائی گئی اس حال میں کہ لڑکی میں رمق تھی۔تو آپۖ نے پوچھا کیا تم کو قتل کیا؟ (یعنی فلاں نے) تو سر سے اشارہ کرکے کہا نہیں۔ پھر دوسری مرتبہ پوچھا تو سر سے اشارہ کرکے کہا نہیں۔پھر تیسری مرتبہ پوچھا تو سر سے اشارہ کیا ہاں! تو حضور نے قاتل کو دو پتھروں سے قتل کیا(ب) اگر تم کو سزا دی تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم سزا دیئے گئے۔ 

Flag Counter